مضامین

پانچ ستونوں سے آگے معاملہ داری اصل دینداری ہے

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی آف انڈیا۔ حیدرآباد

نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسا کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ یہ دین کے ستون یعنی Pillars ہیں۔ انہی ستونوں پر دین کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ لاکھوں کروڑوں ستون تو قائم ہورہے ہیں لیکن ہم عمارت سے محروم ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ جس پلاٹ پر صرف ستون کھڑے کرکے چھوڑ دیں، اس پلاٹ کا کیا انجام ہوتا ہے۔ لوگ اس پر کچہرا پھینکنے لگتے ہیں، کوئی قبضہ کرتا ہے، شرابی اور جوّے باز اسے اڈّہ بنالیتے ہیں۔ اور آج دین کے ساتھ یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ کیوں؟

 

کیونکہ ہم ستون کھڑے کرنے کے تو قائل ہیں لیکن فرش، چھت، دیواریں، کھڑکیاں اور دروازے بنانا ہی نہیں چاہتے۔ اسی لئے ہم نے اس سیریز کا نام”پانچ ستونوں“ سے آگے رکھا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں وہ کیا کیا چیزیں ہیں جو دیواروں، کھڑکیوں اور دروازوں کا کام کرتی ہیں۔ سب سے پہلے ہے معاملہ یعنی Dealings۔ دین کو صرف دو لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ ”الدین معاملہ“۔ یعنی دین معاملہ داری کا نام ہے۔ کسی کا اسلام یا ایمان اس کے چہرے، لباس یا عبادات کے طور طریق سے نہیں ثابت ہوتا بلکہ اس کی معاملہ داری سے ہوتا ہے۔

 

یوں سمجھ لیجئے کہ معاملہ داری سمنٹ ہے جس کے بغیر نہ تو ایک ستون کھڑا ہوتا ہے اور نہ ایک بھی اینٹ رکھی جاسکتی ہے۔ نماز، روزے، زکوٰۃ اور حج اسی سمنٹ کوفراہم کرتے ہیں۔ اس کی ایک بہت چھوٹی سی مثال ہے نماز۔ دیکھئے نماز کس طرح آپ کے معاملات کو درست کردیتی ہے۔ بندہ پوری نماز میں ہدایت مانگتا ہے، اللہ سے استعانت طلب کرتا ہے، رکوع اور سجدوں کے ذریعے اپنی عاجزی، محتاجگی اور بندگی کا مکمل اظہار کرتا ہے، آخر میں سلام پھیرتے وقت اللہ سے ہدایت اور استعانت کے بدلے وہ کیا دے سکتا ہے وہ دینے کا عہدکرتا ہے۔ وہ اِس طرح کہ سلام پھیرتے ہوئے سیدھی طرف منہ کرکیاپنے تمام سیدھی طرف بیٹھنے والوں سے کہتا ہے کہ ”السلام علیکم و رحمۃ اللہ“یعنی ائے میری سیدھی جانب موجود لوگو، تم تمام کو میری طرف سے سلامتی ہے، میرا ہاتھ یا میری زبان تمہارے خلاف کبھی نہیں اٹھیں گے۔ تم چاہے میرا لاکھ برا چاہو، میں تمہارا برا نہیں چاہوں گا، میری طرف سے تم سلامت یعنی محفوظ ہو، نہ میں تمہاری غیبت کروں گا، نہ تم سے حسد رکھوں گا

 

نہ تم پر ہاتھ اٹھاوں گا اور نہ کسی ہاتھ اٹھانے والے کا ساتھ دوں گا۔ اسی طرح وہ بائیں طرف منہ کرکے بائیں جانب موجود تمام نمازیوں سے اللہ کے سامنے وہی عہد کررہا ہے جو سیدھی جانب کے لوگوں سے کرچکا ہے۔ ذرا تصوّر کیجئے، نماز کی اگر یہ حکمت عام ہوجائیتو مسجد میں جو بھی شخص آئے، اس سے سب کو صرف اور صرف خیر کی امید ہوگی، امت مسلمہ کا امیج جو دشمنوں نے بگاڑ دیا ہے، وہ مکمل بدل جائے گا۔ جو لوگ نماز کے منکر ہیں وہ بھی دوڑ

 

دوڑ کر مسجدوں کو آنے لگیں گے۔ اسی لئے نمازِ باجماعت کی فضیلت ہے۔ تمام نمازی نہ سہی، اگر سو مصلّیوں میں سے دس بھی اِس عہد پر پابند ہوگئے تو ان کی آخرت تو کامیاب ہوگی ہی، اس کے ساتھ ساتھ وہ پورے محلّے میں خیر کی ایک مثال ہوجائیں گے۔ لوگ ان کی گواہی کا اعتبار کریں گے، ان کو اپنے معاملات کا جج بنائیں گے۔ پورے محلّے کو اُن سے Inspiration ملے گی۔ پھر چراغ سے چراغ جلنے میں دیر نہیں لگتی۔

 

ایک اور حکمت کی بات عرض کردوں کہ دین نے ہمیں ایک دوسرے کو سلام کرنے کا جو طریقہ دیا ہے اس میں کتنی خیر ہے اندازہ لگایئے۔ دوسروں میں جو طریقے رائج ہیں جیسے گُڈ مارننگ، نمستے، ست سری اکال، ونکّم وغیرہ۔ یہ معنوں کے اعتبار سے سوائے ایک خیرسگالی کے کچھ نہیں۔ جبکہ السلام علیکم کے الفاظ میں وہی سلامتی کی بات ہے جو نماز میں سلام پھیرنے کے باب میں بتائی گئی ہے۔ اگر کوئی سچے دل سے آ پ کو سلام کررہا ہے تو دراصل وہ یہ پیغام دے رہا ہے کہ آپ میری زبان اور میرے ہاتھ سے محفوظ رہیں گے۔ اگر ہم سلام کی حکمت اور اہمیت سمجھ جائیں اور اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو انشااللہ ساری قومیں اپنے اپنے لغو طریقے چھوڑ کر السلام علیکم کہنے لگے گی۔ اسی سلام کی بدولت آج جو مسلمان اپنی معاملہ داری کی وجہ سے خود بھی بدنام ہے

 

اور اپنی حرکتوں سے دنیا کو بھی اسلام اور مسلمانوں سے بدظن کررہے ہیں، اگر یہ لوگ سلام کے صحیح معنوں کو سمجھ کر دل سے عمل کریں تو مسلمانوں کی شناخت اور ان کا کردار بدل جائیگا انشااللہ۔

وآخردعونا عن الحمد لللہ رب العالمین۔

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button