جنرل نیوز

امت مسلمہ کے زوال کا سب سے بڑا سبب قرآنی تعلیمات سے دوری ہے۔حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد کے مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

حیدرآباد 4ارپریل (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آج وہ ابنے خطاب میں بتلایا کہ اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے پہلا اور بنیادی رکن شہادتِ توحید و رسالت ہے۔ جس کی رُو سے ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دے اور ساتھ ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا بھی اقرار کرے کیونکہ ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرایمان لا ئے بغیر مجرد توحید باری تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ لغو بے حقیقت اور محض خام خیالی ہے۔ایمان و اتباع کے باب میں دونوں سے بیک وقت اور ایک ساتھ رشتہ قائم کرنا ہی اسلام کی اصل اور بنیاد ہے اس عقیدے کو دل و دماغ میں راسخ کرنا مبادیاتِ ایمان میں سے ہے۔ ان میں کسی ایک کا بھی انکار کفر ہے۔ نبی آخر الزمان کی بعثت کے بعد اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ کی واحدانیت پر ایمان لانے سے قبل رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں کیونکہ محض توحید پر ایمان لانا ایمان کی ضمانت فراہم نہیں کرتا، جیسے یہودی توحید پرست تو ہیں لیکن رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منکر ہیں اس لئے کافر کہلاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قرآن حکیم انسانیت کیلئے کتاب ہدایت ہے۔ قرآن کریم کا یہ اعجاز ہے کہ اس کی کسی ایک آیت کی تفصیل میں جائیں تو اس میں پوری زندگی کا خاکہ نظر آتا ہے۔ قرآن حکیم زندگی کے تمام پہلوؤں کو زیر بحث لاتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ آدمی اس پر غور و فکر کرے اور قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرے۔ قرآن حکیم کو جب بھی پڑھیں تو اس نظر سے پڑھیں کہ اللہ کریم کا یہ حکم میرے لئے ہے۔ زیادہ سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت کی جائے اور قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کی جائے۔

قرآن مجید کی تلاوت کرنا باعث برکت اور ثواب ہے اس عمل سے ایمان بڑھتا ہے اور دلوں کے زنگ اترتے ہیں۔ قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ پڑھیں۔ روئے زمین کے تمام انسان قرآن کریم کا مخاطب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر خشک و تر کا علم قرآن مجید میں رکھا اور اسے ہر قسم کی کمی بیشی سے پاک رکھتے ہوئے اس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کرم سے اس لاریب اوربے مثل کتاب کا وارث امت محمدی کو بنایا ہے۔ امت محمدی کو یہ شرف تاجدار کائنات ﷺ سے نسبت غلامی کی وجہ سے حاصل ہوا۔ مگر آج ہم نے قرآنی تعلیمات سے منہ موڑ لیا جس کا نتیجہ ہے کہ امت مسلمہ زوال پذیر ہے۔ امت مسلمہ کے زوال کا سب سے بڑا سبب قرآنی تعلیمات سے دوری ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن مجید کے مسلمانوں پر پانچ حقوق ہیں جن میں قرآن مجید کو پڑھنا، سمجھنا، تدبر و تفکر کرنا اور اس کی تعلیمات کو دوسرے لوگوں تک پہنچانا ہے۔مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے مذید بتلایا کہ زندگی کو کامیاب بنانے کیلئے سب سے پہلے زندگی کا مقصد جاننا بہت ضروری ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی زندگی میں کامیابی کیلئے اپنا کوئی مقصد طے کرتا ہے اور پھر اُسے حاصل کرنے کیلئے کوشش کرتا ہے۔ کسی کا مقصد ڈھیر سارا پیسہ کمانا ہے اور کوئی کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچنا چاہتا ہے، الغرض ہر ایک کے دل میں بہت سے خواب سمائے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اِنسان کو اِس سیارے پر اپنا خلیفہ اور نائب بنا کر اُتارا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کی زندگی کا مقصد کیا طے کیا ہے! سب سے پہلی بات یہ ذہن نشین کر لیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو کسی جرم کی سزا کے طور پر جنت سے نہیں نکالا تھا، بلکہ آدم و حوا کا زمین پر آنا اللہ تعالیٰ کے قدیم منصوبے کا ایک حصہ تھا، ورنہ اُنہیں اِتنے اِعزاز و اِکرام کے ساتھ اپنا خلیفہ ہونے کا ٹائٹل دے کر نہ بھیجا ہوتا اور اَشرف المخلوقات قرار نہ دیا ہوتا۔

اسانی تخلیق اور خلافتِ ارضی کا بنیادی مقصد اِنسان کی آزمائش ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ الملک کی آیت 2 میں ارشاد فرمایا:’’جس نے موت اور زندگی کو (اِس لئے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے۔‘‘جو اِنسان اِس آزمائش پر پورا اُترنے کی بجائے اپنی مرضی سے اپنی زندگی کا کوئی نیا مقصد طے کر لیتے ہیں اور اللہ ربّ العزت کے طے کردہ مقصد کو مدِنظر رکھنے کی بجائے زمین سے واپسی (یعنی موت اور آخرت) کو بھول جاتے ہیں اور اِسی دُنیاوی زندگی کو سب کچھ سمجھ کر ہمیشہ یہیں رہنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، اُن کا انجام بربادی ہے۔ چنانچہ ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ ربّ العزت کی رضا اور خوشنودی کو اپنی زندگی کا پہلا مقصد بنائیں اور ہمیشہ ایسے لوگوں کی صحبت اور سنگت اختیار کریں جو اللہ کی رضا کے طالب ہوں۔ اللہ تعالی نے قرآنِ مجید (الکہف، 18: 28) میں ہمیں واضح الفاظ میں حکم فرمایا ہے کہ ہم اپنی زندگی کا مقصد پانے کے لیے نیک لوگوں کی صحبت و سنگت اِختیار کریں اور اِس زمینی دُنیا کی خوبصورتی میں کھو کر یہیں کے ہو کر رہ جانے والے لوگوں کے ساتھ دوستی نہ لگائیں۔جب ہماری زندگی کا اصل مقصد اللہ ربّ العزت کی رضا اور خوشنودی ہے تو ہمیں چاہیئے کہ لوگوں کی خوشی پر ہمیشہ اللہ کی خوشی کو ترجیح دیں۔ البتہ دُوسروں کو کسی دُنیاوی مفاد کی بجائے اگر صرف اِس نیت سے خوش کریں کہ اِس نیک عمل سے اللہ اور اُس کا رسول ﷺ خوش ہوتے ہیں تو اِس نیت سے یہ بھی کارِ ثواب ہے۔ اپنے دل و دماغ میں اِس بات کو پختہ کر لیں کہ ہر وہ عمل جو دُوسروں کیلئے سہولت اور آسانی کا باعث بنے، وہ نیکی ہے اور ہر وہ عمل جس سے دُوسروں کو کسی قسم کی تکلیف پہنچے، وہ گناہ ہے۔ہمیں چاہیئے کہ ہم اِس زمینی دنیا میں کھو کر اپنی پیدائش کے مقصد کو نہ بھولیں۔ جو اِنسان اپنی تخلیق کے مقصد، زمین سے واپسی اور آخرت کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں اور اِس دُنیاوی زندگی کو عارضی اور فانی سمجھتے ہیں، اللہ تعالی پر اِیمان لاتے ہیں اور اُس کے رسول ﷺ کے لائے ہوئے دین کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہی کامیاب ہیں اور وہی بالآخر اِس سیارۂ زمین سے واپس جنت میں جانے میں کامیاب ہوں گے۔

موت زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور موت ہی زندگی کی سب سے بڑی نعمت بھی ہے۔ اِنسانوں کو اِس زمین سے واپس جنت کی طرف لے کر جانے والا راستہ موت کے دروازے سے ہو کر گزرتا ہے۔ بہت سے سادہ لوح لوگ ایک طرف جنت کے طلبگار ہوتے ہیں جبکہ دُوسری طرف وہ موت سے خوف بھی کھاتے ہیں۔ چنانچہ موت سے ڈرنے کی بجائے ہمیں خود کو موت کیلئے تیار کرنا چاہیئے۔ اللہ ربّ العزت اور آخرت پر اِیمان رکھنے والا کوئی شخص موت سے نفرت نہیں کر سکتا۔ موت سے نفرت صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت پر اِیمان نہیں رکھتے اور صرف اِسی زمینی حیات کو ہی زندگی سمجھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اِنسانوں کی ہدایت کیلئے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو اِنسانیت کی طرف پیغامبر بنا کر بھیجا، جو اِنسانوں کو سیارۂ زمین سے جنت کی طرف واپسی کی یاد دلانے اور واپسی کا لائحہ عمل دینے کیلئے آتے رہے ہیں۔ اِس سلسلہ کے آخری رسول ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں اور اُن پر اُترنے والی کتاب قرآنِ مجید اِنسانیت کیلئے آخری منشور اور مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اِنسانیت کی نجات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے آخری اور حتمی ضابطۂ حیات ’’قرآنِ مجید‘‘ کو زندگی کا منشور بنانے میں ہے۔

یاد رکھیں! اِس مادی دُنیا کی رنگینیاں سراسر ایک دھوکہ ہیں، کیونکہ حقیقت میں یہ کرۂ ارض ایسا خوبصورت نہیں ہے جیسا ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ ہمارا نفس اِسے بہت خوشنما بنا کر دکھاتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن ہماری رہنمائی یوں کرتا ہے:

’’اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا۔‘‘بنی نوعِ انسان کے ازلی دُشمن اِبلیس (شیطان) کو جب جنت سے نکالا گیا تو اُس نے اللہ ربّ العزت کے سامنے پختہ عہد کیا تھا کہ وہ اِنسانوں کی نظر میں زمینی زندگی کو خوب آراستہ اور خوشنما بنا کر دکھائے گا تاکہ وہ جنت کی طرف واپسی کے سفر کو بھول جائیں او اِسی دُنیا کو حقیقی زندگی سمجھنے لگ جائیں۔ قرآن اس کے اس چیلنج کو یوں بیان کرتا ہے:’’ابلیس نے کہا: اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقیناً ان کے لئے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوش نما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔‘‘نسلِ انسانی کی اکثریت شیطان اور اُس کے چیلوں کے مکر و فریب میں آ کر اِس حقیقت کو بھول بیٹھی ہے کہ کرۂ ارض پر اِنسانی زندگی کی حیثیت عارضی کھیل تماشے سے زیادہ کچھ نہیں۔ آخرت کے گھر (جنت کی دائمی زندگی) کو بھول کر اگر اِنسان اِسی دنیا کے کھیل تماشوں جیسی عارضی زندگی میں مگن رہنا چاہے تو وہ سراسر خسارے میں ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہیں اور اپنے دلوں میں اُس کا خوف رکھتے ہیں وہ زمینی زندگی کو فانی سمجھ کر ہر لمحہ واپسی کے سفر کیلئے تیار رہتے ہیں، اصل وہی کامیاب ہیں۔مولانا رومؒ کا ایک مشہور قول ہے:’دُنیا کو دھوکے کا گھر اِس لئے کہا جاتا ہے کہ یہاں پر حقیقتیں اُلٹی نظر آتی ہیں۔‘‘

ہماری آنکھوں میں دیکھنے کی جو صلاحیت ہے، وہ ہمیں اِس زمینی دُنیا کو بہت خوشنما بنا کر دکھاتی ہے۔ اِس زمینی ماحول میں ہمارے اِردگرد ایسی بہت سی بدنما چیزیں بھی موجود ہیں کہ اگر ہم اپنے ماحول کو اُس کی اصلی حالت میں دیکھ لیں تو ہمیں اِس زمینی دُنیا سے کبھی محبت نہ ہوسکے، مگر ہم یہ صلاحیت نہیں رکھتے۔ہماری آنکھیں اِس زمینی ماحول کی حقیقت کیوں نہیں دیکھ پاتیں، یہ جاننے کیلئے ہم چند مختلف پہلوؤں سے اس کا جائزہ لیتے ہیں:

اِس زمینی دُنیا میں جاری و ساری نظام اور روز بروز پیش آنے والے واقعات اِنسانی عقل کو عاجز کرنے کیلئے کافی ہیں۔ اگرچہ سائنسی ترقی کی بدولت ہم اِس کائنات کے فطری قوانین کو جزوِی طور پر سمجھنے لگ گئے ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ سارا نظامِ کائنات اِنسانی عقل میں نہیں سما سکتا۔ دُنیا میں جو بھی ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ایک معجزہ ہی ہے، البتہ اُن میں سے بعض کی ہمیں عادت ہو گئی ہے اور ہم اُنہیں معمولی سمجھتے ہیں۔ اگر ہم رک کر سوچیں تو ہماری عقل اِس نظام کو مکمل طور پر سمجھنے سے عاجز ہے۔ آخرت کا درجہ و مرتبہ دُنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔اللہ ربّ العزت کے نزدیک زمینی زندگی کی رنگینیوں میں کھو کر واپسی کے سفر کو بھول جانے والے لوگ خسارے میں ہیں۔ دُنیا کو آخرت پہ ترجیح دینے والے قرآنِ مجید کی نظر میں گمراہ ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اِس دنیا میں یوں زندہ رہیں کہ ’’ہم تو دُنیا میں رہیں مگر دُنیا ہمارے دل میں نہ رہے۔‘‘ اگر ہم دُنیا کو دل میں جگہ دے دیں تو ہم آخرت کو بھول کر دُنیوی خواہشات کے پیچھے مارے مارے پھرتے رہیں گے، نتیجتاً ہم اپنی عاقبت برباد کر بیٹھیں گے۔

 

 

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button