اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحہ ایک عبقری شخصیت – مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

حیدرآباد 9اپریل (پریس ریلیز ) چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے 10شوال المکرم*ولادت باسعادت*حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحہ حیات وخدمات کی فکری نشست گے دوران گفتگو بتلایا کہ مفکر و مجدد امام احمد رضا قدس سرہ العزیز (م : 1340ھ / 1921ء) اپنے عہد میں بر صغیر کے سب سے بڑے دینی پیشوا اور ملی رہ نما تھے، انھوں نے اسلام اور عقیدہ اہل سنت کے تحفظ اور فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ امتِ مسلمہ کا اتحاد اور اس کی فلاح و نجات ان کی فکر کا خاص محور تھا۔ وہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقطہ اتحاد پر عالمِ اسلام کو ہم قدم اور ہم فکر کرنا چاہتے تھے۔ وہ بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جانے کے زبردست داعی تھے۔ وہ امتِ مسلمہ کی کامیابی کا راز دینِ مصطفیٰ، علمِ مصطفیٰ اور عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مضمر سمجھتے تھے۔ اسی فکر کے داعی شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال بھی تھے۔
بمصطفے ٰ بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است
امام احمد رضا قدس سرہ العزیز بلا شبہ عظیم مجدد، عظیم فقیہ اور عظیم دانش ور تھے۔ وہ امتِ مسلمہ کے داخلی اور خارجی مسائل و مشکلات پر حساس نظر رکھتے تھے۔ مسلمانوں کی حالتِ زار پر آنسو بھی بہاتے تھے اور ان کی فلاح و نجات کے لیے تدبیریں بھی پیش کرتے تھے۔ ان کی فکر و نظر کا محور یہی تھا کہ اسلامی تہذیب دنیا کی ہر تہذیب پر غالب ہو اور مسلم قوم دنیا کی ہر قوم سے بلند تر ہو۔ دین و مذہب، سیاست و صحافت، معیشت و معاشرت، تعلیم و تجارت، وہ ہر میدان میں مسلمانوں کو سرخرو اور کامیاب دیکھنا چاہتے تھے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے مسلسل جد و جہد کی۔ امتِ مسلمہ کو بار بار جھنجھوڑا، علما اور قائدین کو بیدار کیا اور انھیں ان کی منصبی ذمہ داریوں سے باخبر کیا۔ ان کی کوتاہیوں پر زجر و توبیخ فرمائی، تعمیری منصوبے بنائے، خطوطِ عمل طے کیے، باہمی اتحاد کے لیے قرآن و احادیث سے دلائل دیے۔ نفرت و بے زاری کا ماحول ختم کرنے کے لیے شرعی احکام سپردِ قلم کیے۔مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد نے مذید بتلایا کہ خدا تعالی ہر زمانے میں ایک ایسے مجاہد کو ہمارے درمیاں مبعوث فرماتا ہے جو لوگوں کو راہ ھدی پر گامزن کرے بنجر دلوں میں گل و لالہ کے بیج بوئے۔ ان کی صحبت میں رہنے والا کبھی بھی شکستہ حالی کے دن نہیں دیکھتا، کبھی بھی شقاوت میں مبتلا نہیں ہوتا کہ ان سے ا لفت و محبت کرنے والا با سعادت اور فیض یاب رہتا ہے۔میں جس مبارک ہستی کا ذکر کرنے جا رہا ہوں وہ ایک ایسی ذات مبارکہ ہے کہ بندہ نا چیز کی زبان و قلم بولنے اور لکھنے سے قاصر ہے۔ یہ عظیم ذات کوئی اور نہیں بلکہ اعلی حضرت عظیم البرکت مجد د دین وملت حامی سنت باعث خیر و برکت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ جن کے چرچے دنیا کے کونے کونے چپے چپے میں ہیں، جن کا نام سنتے ہی غیر مقلد اور وہابیوں کے تلے زمین کھسک جاتی ہے، جسم تھرا جاتے ہیں اور بدعت و ضلالت کے راستے بند ہوجاتے ہیں۔یہ وہ عظیم ہستی ہے جن کا فیضان علم روحانی ساری دنیا کو دستیاب ہے ان کے ذریعہ ہر ذلیل وفقیر سعادت کے سانچوں میں ڈھلتے نظر آتے ہیں،لوگوں کے دل ودماغ میں سنیت کے چشمے ابلتے نظر آتے ہیں۔ایسا ولی باکمال، فقید المثال عاشق رسول،پیر طریقت بریلی شریف کی سر زمیں پر آسودۂ خاک ہے۔
اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے محلہ جسولی میں بتاریخ 10/ شوال المکرم1272/کو بروز ہفتہ ظہر بمطابق1856/م کو ہوئی۔آپ کا پیدائشی نام محمد رکھا گیا تھا اور تاریخی نام ‘المختار’ تھا۔ بعد میں آپ کے جد امجد رضا علی خان نے آپ کا نام احمد رضا تجویز فرمایا۔آپ نے خود ایک آیت قرآنی سے اپناسن ِولادت نکالا تھا ‘اولئک کتب فی قلوبہم الایمان و ایدہم بروح منہ’ تر جمہ’جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرمادیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی‘۔ آپ بچپن ہی سے نہایت شریف، ادب نواز اوربا حیا وباکمال تھے۔آپ کے والد گرامی مولانا شاہ نقی علی خان عالم دین،عاشق رسول،نجگانہ نماز ادا کرنے والے اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ کا نام ارشاد بیگم تھا جو ایک نیک سیرت خاتون تھیں،بڑی سر چشم،انتہائی مہمان نواز نہایت متین و سنجیدہ بی بی تھیں، جنہیں آپ جیسی نرینہ اولاد کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کا تعلق پٹھان خاندان سے تھا جو مغلوں کے دور میں ہندوستان تشریف لائے تھے۔آپ کے جد اعلی سعید اللہ خان قندھار کے قبیلے بڑ ہیچ سے تھے۔ اپنی قابل قدر خوبیوں کی بنا پریہ خاندان مغلیہ دور میں معزز ومعظم عہدوں پر فائز رہا۔ اپ کے جد امجد سعادت یار خان جنگ کے غرض سے روہیل کھنڈ آئے اور فتح یابی حاصل کرنے کے بعد وہیں انتقال کر گئے۔ محمد شا ہ کی حکومت کے دوران آپ کے صاحبزادے اعظم خان نے بریلی کے قصبے میں آکر سکونت اختیار کرلی۔ آپ کے فرزندکاظم علی خان کا شمار اپنے دور کے قطب اور ولی صفت شخصیات میں ہوتا تھا۔ آپ کے فرزندامام العلماء رضا علی خان ہوئے۔اور آپ کے فرزند ارجمندہیں حکیم الاتقیامفتی نقی علی خان علیہم الرحمۃ و الرضوان جو اعلی حضرت کے پدر عزیز ہیں۔ حکیم الاتقیاء بلا شبہ ظاہری اور باطنی دونوں علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ آگے چل کرانہی علوم ظاہری و باطنی اور آپ کے تقوی و پرہیزگاری کے باعث خدا نے آپ کو مجدد اعظم امام اہل سنت جیسے عظیم الشان فرزند کا تحفہ دیا۔
آپ کی تعلیم وتربیت بچپن ہی سے آپ کے والد نقی علی خان کے زیر نگرانی میں ہوئی۔ان ہی کے پاس درسی علوم مکمل کیے۔ نیزاس زمانے کے علماء کرام سے بھی ظاہری وباطنی علوم سے آراستہ و پیراستہ ہوئے۔چھ سال کی عمر میں قرآن کریم کا ناظرہ ختم کیا۔آٹھ سال کی عمر میں ھدایۃ النحو کی شرح لکھی جو آپ کی پہلی شرح تھی اور دس سال کی عمر میں مسلم الثبوت پر حاشیہ تحریر فرمایا۔آپ نے عربی فارسی کی ابتدائی تعلیم استاد مرزا غلام قادربیگ سے حاصل کی اور بقایا علوم اپنے والد ماجد حضرت نقی علی خان سے حاصل کیے۔
آپ کا علم اس قدر اعلی درجہ پر تھا کہ چھ سال کی عمر میں ربیع الاول کے موقع پر بھرے مجمع میں مسجد کے ممبر پر کھڑے ہو کر مکمل دو گھنٹہ کی تقریر بیاں فرمائی اور علم و عرفاں کے دریا بہاتے ہوئے سب کے دلوں کو منور ومعطر کر دیا۔سبھی حاضرین مجلس آپ کی تبحر علمی پر عش عش کر اٹھے۔حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث مبارکہ ہے: حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ سے مروی ہے کہ حضورﷺ فرماتے ہیں ‘من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین’ کہ’جس کے لیے خدا تعالی خیر خواہی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کا فقیہ بنا دیتا ہے۔
بتاریخ 14/ شعبان المعظم کو آپ نے فراغت حاصل کی اور اسی دن ان پر نماز فرض ہوئی وہ فرماتے ہیں کہ ‘میں جس دن فارغ ہوا اسی دن رضاعت کا مسئلہ لکھ کر ابا جان کو دکھایا۔تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ ’جو آپ نے لکھا ہے بالکل صحیح ہے‘۔
اسی دن سے آپ درس و تدریس اور فتوی نویسی پر بھی معمور ہوگئے۔
آپ کی تصانیف تقریبا پچاسوں علوم و فنون پر مشتمل ہیں۔ جس میں آپ کے کئی سارے رسائل، تحقیقاتی کتابیں، فتوی جات اور دیگر تصانیف شامل ہے۔ آپ کا مشہور زمانہ اور عظیم کارنامہ 30 /جلدوں پرمشتمل ’فتاوی رضویہ‘ ہے جوفی زمانناحنفی فقہی مسائل کے اعتبار سے اہم اورعظیم المرتبت کتاب مانی جاتی ہے۔دوسری اہم کتاب ’حدائق بخشش‘ ہے جو آپ کی نعتوں اور شعروں کا مجموعہ ہے۔جس کا ہر ہر شعراپنے آپ میں ایک دنیا سموئے ہوئے ہے اور پہاڑ جتنا وزن رکھتا ہے۔ نیزآپ کے انہی شاہ کار کارناموں سے ایک دولت لازوال ہے آپ کا کیا ہوا ترجمہ قرآن’کنزالایمان‘جو۔ دیگر اور بھی کتابیں اور رسائل ہیں جن کی اپنی اہمیت ہے۔
اعلی حضرت فکرو فہم کی بلندیوں پر ہماری عقل کا پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔جب اعلی حضرت اپنی حیات کا دوسرا حج فرما رہے تھے تو منکر ین علم غیب کے رد میں صحن حرم مکہ مکرمہ میں بیٹھ کر بنا کسی کتاب یا حوالجات کے اپنی فراست و دانائی اور یادداشت سے محض آٹھ گھنٹے کے اندر’الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ ‘نامی کتاب تصنیف فرمائی۔ جس سے متاثر ہو کر علماء عرب و عجم نے آپ کو مجدد کے لقب سے نوازا۔
آپ بڑے ہی متقی اور خوف خدا والے تھے، نہ کسی کو برا بھلا کہتے اور نہ ہی کسی کی دل آزاری کرتے۔لوگوں کوتاریکی سے اجالے کی طرف لانے والے تھے۔ تقوی و پرہیز گاری کا یہ عالم تھا کہ جب کسی اجنبی عورت کو دیکھتے تو حیا کے مارے جھک کر چلتے۔آپ کے عہد طفولیت کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک دن آپ اپنے دولت کدے کے باہر کھڑے تھے کہ اچانک دیکھتے ہیں چند بازاری عورتیں آپ کے سامنے سے گزر رہی ہیں۔آپ نے فورا اپنا دامن کھینچ کراپنا چہرہ ڈھک لیا۔ یہ دیکھ کر تو وہ کہنے لگیں کہ: ‘واہ میاں آنکھیں تو ڈھک لیں پرستر توکھل گیا ہے!’۔ آپ نے فورا عارفانہ انداذ میں جواب دیا کہ ‘جب آنکھ بہکتی ہیں تو دل بہکتا ہے اور جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے’۔یہ سن کر وہ خاموش کھڑی کی کھڑی رہ گئیں۔
آپ ہمہ وقت صوم و صلاۃ کے پابند تھے کم سِنی سے ہی روزہ رکھنا شروع کردیا تھا۔ مولانا حسین رضا خان کا قول ہے کہ جب آپ کو شعور آنے لگا تو اسی وقت سے با جماعت نماز کے پابند ہو گئے اور تا حیات اسی پر صاحب ترتیب رہے۔
ایک مرتبہ جب آپ خورد سال کے تھے تو آپ نے اس دن روزہ رکھا تھا دو پہر کا وقت ہوا چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی یہ دیکھ آپ کے والد ماجد کمرے میں لے گئے۔ان کے ہاتھ میں فیرنی کا ایک پیالا تھا۔ابو جان نے آپ سے کہا کہ بیٹا اس فیرنی کو پی لو تو آپ نے کہا ’میں تو ابھی روزے سے ہوں‘ تب انہوں نے کہا کہ ایک بچہ کا روزہ اسی طرح ہوتا ہے کہ ایک کمرے میں کوئی بند ہے نہ آسکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے۔ تب آپ نے کہا کہ: ’جس کا روزہ ہے وہ تو دیکھ رہا ہے‘۔یہ سن کر والد آبدیدہ ہوگئے اور آپ کو دعاؤں سے نوازا۔اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے آپ کے تقوی و پرہیزگاری میں با کمال تھے۔
آپ کو لوگ بہت سارے القاب سے جانتے ہیں لیکن سب سے زیادہ مشھور و معروف لقب’اعلی حضرت‘ ہے جو کہ صرف ہمارے ملک میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں اور بچے بچے کی زباں پر گونجتا ہے۔ اور دور حاضر میں حال یہ ہوگیا ہے کہ عالَم سنیت آپ ہی کے اسم مبارک سے جانی جاتی ہے کہ آپ کا نام بھی گویا سنیت کی دلیل بن چکا ہے۔