ہر خاندان سے ایک بچے کو حافظ قرآن اور عالم دین بنانے کی شدید ضرورت ہے۔ مولانا حافظ پیر شبیر احمد صاحب صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ

،،موجودہ دور میں اپنے اور اپنے نسل کے ایمان کی حفاظت کیلئے ہر خاندان سے ایک بچے کو حافظ قرآن اور عالم دین بنانے کی شدید ضرورت ہے۔
مولانا حافظ پیر شبیر احمد صاحب صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ کا بیان،،
حیدر آباد12/اپریل ( پریسں ریلیز) حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صاحب صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ قرآن وسنت کی تعلیمات کے بغیر کسی اسلامی معاشرہ کی بقاء اور اس کے قیام کا تصور ممکن نہیں ۔ قرآن وسنت اسلامی تعلیمات کا منبع ہیں اور دینی مدارس کا مقصد اسلامی تعلیمات کے ماہرین ، قرآن و سنت پر گہری نگاہ رکھنے والے علماء تیار کرنا اور علوم اسلامیہ میں دسترس رکھنے والے ایسے رجال کار پیدا کرنا جو مسلم معاشرہ کا اسلام سے ناطہ جوڑیں اور دینی و دنیاوی امور میں راہنمائی اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا فریضہ انجام دیں۔ قرآن وسنت کے علوم و معارف سمجھانے کے لئے نبی کریم ﷺ نے دار ارقم میں ایک درس گاہ قائم کی جس میں کلمہ پڑھنے والے لوگوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کی جاتی تھی۔ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر آپ نے حضرت مصعب بن عمیر کومدینہ بھیجا آپ ﷺ نے بنی ظفر کے ایک وسیع مکان میں سیدھے سادھے مگر اسلامی دنیا کے بہترین مدرسے کا افتتاح کیا جو ہجرت مدینہ کے بعد "مدرسہ اصحاب صفہ ” کی صورت میں پھلا پھولا ، جہاں ہر وقت طلباء علوم دینیہ کی کثیر تعداد موجود رہتی ۔ اس کے فیض یافتہ پوری دنیا میں پھیلے اور انسانیت کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ابدی فلاح اور کامیابی کی طرف راہنمائی کی ۔ صفہ کے اسی تصور نے بعد میں ترقی کر کے مدرسے کی شکل اختیار کی اور پھر مختلف مدارس اور مکاتب میں صورت گر ہو کر دین اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کا ذریعہ بنا اس طرح ظلمت کی باقی اس دنیا اور تعلیم سے بیزار اقوام عالم میں علم کی روشنی پھیلنے لگی۔ دینی مدارس جہاں اسلام کے قلعے، ہدایت کے سرچشمے، دین کی پناہ گا ہیں اور اشاعت دین کا بہت بڑا ذریعہ ہیں، جو لاکھوں طلبہ و طالبات کو بلا معاوضہ تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں رہائش و خوراک اور مفت طبی سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں ، دینی مدارس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنا کہ دین اسلام ۔ ان دینی مدارس نے ہر دور میں تمام تر مصائب و مشکلات، پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود کسی نہ کسی صورت اور شکل میں اپنا وجود اور مقام برقرار رکھتے ہوئے اسلام کے تحفظ اور اس کی بقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انگریز نے برصغیر میں اپنے تسلط اور قبضہ کیلیے دینی اقدار اور شعائر اسلام مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی دینی مدارس اور اس میں پڑھنے پڑھانے والے خرقہ پوش اور بوریانشین طلبائے دین اور علمائے کرام ہی تھے، دینی مدارس کا وجود ہر دور میں مسلم ہے۔ جس طرح اوز اول اس کی اہمیت تھی۔ آج بھی اتنی ہی اہمیت ہے ۔ مدارس دینیہ کا قیام اور وجود مسلمانوں کے پاس وہ نعمت ہے جو تمام نعمتوں سے برتر اور اعلیٰ ہے۔ اسلام کی حقیقی روح کی بقاء اسی مدارس کے وجود میں پوشیدہ ہے علم کے بغیر اسلامی عقائد پر ایمان رکھنا اور احکام پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے، موجودہ دور میں صحیح اسلامی علوم ان ہی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں، لہذا یہ وہ مراکز ہے جس سے منسلک رہ کر مسلمان اپنے دین کی حفاظت اور عقائد کو درست کر سکتے ہیں ۔ ابتدائے اسلام میں مدارس کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ رات دن دینی علوم کی ترویج اور اشاعت کا کام ہوتا تھا ، اعلی درجے کی تقویٰ کی وجہ سے مسلمانوں کا حافظہ انتہائی قوی ہوتا تھا۔ ہر قسم کے مسائل وہ صرف سُن کر یاد کر لیتے تھے۔ گردش زمانہ کی وجہ سینہ تقوی کا وہ معیار رہا اور نہ حافظوں پر مکمل اعتماد رہا، لہذا مسائل کی حفاظت کے لئے فرض کفایہ لیے اسے لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ یہ مدارس صرف مسلمانوں کی ہی نہیں ، بلکہ پوری نسل انسانی کی خدمت کر رہے ہیں اور اس کی طرف سے ادا کر ہے ہیں۔ مادیت کے اس اٹھتے ہوئے سیلاب میں آج اگر قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند ہو رہی اور بڑھتی جا رہی ہیں تو یہ ان دینی مدارس اور اس میں پڑھنے، پڑھانے والوں کا ہی فیضان ہے، یہ دینی مدارس اسلام کی پناہ گاہیں اور ہدایت کے سرچشمے ہیں اور یہ دین کی ایسی روشن مشعلیں ہیں کہ جن کی کرنیں ایک عالم کو منور کر رہی ہیں اور قیامت تک کرتی رہیں گی۔ لہذا اعامتہ المسلمین سے درخواست ہے کہ اا/شوال الکرم سے دینی مدارس کا آغا ہو چکا ہے۔ موجودہ دور میں اپنے اور اپنے نسل کے ایمان کی حفاظت کیلئے ہر خاندان سے ایک بچے کو حافظ قرآن اور عالم دین بنانے کی شدید ضرورت ہے ۔ اللہ تعالی ہم کو صحیح علم اور عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔۔۔۔