جنرل نیوز

بحر العلوم حضرت مولانا عبد القدیر صدیقی حسرت رحہ بلاشبہ نورِ حق کا ایک آفتاب تھے،نولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

 

حیدرآباد 14اپریل (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بضمن 65واں عرس شریف بحر العلوم حضرت مولانا محمد عبد القدیر صدیقی (حسرت) رحہ 15 تا 17 اپریل کے درمیان کی فکری نشست گے دوران گفتگو بتلایا کہ بحر العلوم حضرت مولانا عبد القدیر صدیقی حسرت رحہ بلاشبہ نورِ حق کا ایک آفتاب تھے، ظلمتوں میں ماہتاب تھے اور نکہتِ علم و حکمت کا مہکتا گلاب تھے۔ ان کے اَفکار متلاشیانِ حق کیلئے نقشِ راہ تھے اور رہیں گے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مرقد وبحر العلوم حضرت مولانا عبد القدیر صدیقی حسرت رحہ کو جنت الفردوس کا گل زار بنائے اور ان کے علمی ورثے کو قیامت تک کے اہلِ حق کے لیے نورِ ہدایت بن کر چمکتا، مہکتا اور سرسبز و شاداب رکھے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،حیدر آباد کے مشائخ میں بحر العلوم مولانا عبد القدیر صدیقی حسرت کا نام بہت ہی نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ مولانا کا تعلق احمد آباد گجرات کے ایک علمی و مشائخ خانوادہ سے ہے اس خانوادہ کے ایک بزرگ آصف جاہ دوم نواب میر نظام علی خان (1762 تا 1803ء کے عہد حکومت میں اور نگ آباد پہنچے ان کے صاحبزادہ محمد فضل اللہ صدیقی بہت ہی بلند پایہ شخصیت تھے جو مملکت آصفیہ میں عدالت العالیہ کے قیام کے ساتھ ہی پہلے میر مجلس یعنی چیف جسٹس کی حیثیت سے متعین کے گئے حضرت عبدالقدیر صدیقی کے پدر بزرگوار انہی کے دوسرے صاحبزادے تھے جن کا انتقال ۱۹۱۱ ء م ۱۳۲۹ھ میں ہوا اور درگاہ حضرت شاہ خاموش کے احاطہ نامیلی حیدر آباد میں مدفون ہیں۔

مولانا حسرت صدیقی ۱۲ اکتوبر ۱۸۷۱ ءم ۲۷ رجب ۱۳۸۸ ھ انکے نانا میر پرورش علی حسینی کے مکان واقع محلہ قاضی پورہ میں تولد ہوئے آپ کا سلسلہ نسب اٹھائیس واسطوں سےحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔ والد کے علاوہ مولا نا محمد سعید ، مولانا حبیب ابوبکر بن شہاب، حضرت مولانا حبیب الدین، مولانا الہی بخش ، مولانا عبد الصمد قند باری ، مولانا عون الدین ، مولانا سید عمر حسینی ، قاری سید محمد تونسی، آنجہانی امرت لال سے عربی دینیات، منطق و فلسفہ ، تفسیر وحدیث، طب ، قرات و سائنس کی تحصیل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل و منشی فاضل کے امتحانات امتیازی درجہ سے کامیاب کئے۔ علم تصوف و شعر و سخن میں حضرت خواجہ محبوب اللہ سے جو آپ کے حقیقی ماموں تھے اکتساب کیا اور انہی سے بیعت و خرقہ خلافت بھی حاصل تھا۔

حضرت عبد القدیر حسرت نے حیدر آباد کے قدیم مدرسہ دار العلوم میں عربی ادب کے استاذ کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ مولانا حسرت صدیقی حیدر آباد کے وہ منفرد مشائخ ہیں جن کا قلم معجز نما حد تک سیال تھا آپ زود نویس ضرور تھے لیکن آپ کی معلومات کے پیچھے ٹھوس دلائل ، معقول و منقول سے استدلال، بحث کا انداز انتہائی محققانہ و عالمانہ دکھائی دیتا ہے۔ مولانا حسرت صدیقی نے حیدر آباد کی ادبیات میں کئی کتب کا اضافہ کیا آپ کی تصانیف، تراجم ، مقالات، مضامین اور رسالوں کی تعداد پچاس سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن اب تک دستیاب کتب و مقالات کی ایک فہرست ذیل میں درج کی جاتی ہے۔ جن میں اکثر اردو زبان میں لکھی گئی ہیں۔

 

(1) تفسیر صدیقی

 

(۳) مسئله عدم نسخ قرآن

 

(۵) حکمت اسلامیہ

 

(۷) مکاتیب عرفان

 

(۹) مراة الصدق

 

(۲) آیات بینات

 

(۴) العرفان

 

(1) التوحيد

 

(۸) قول فیصل

 

(۱۰) سماع

 

(11) حقیقت معراج

 

(۱۲) حقیقت بیعت

 

(۱۳) اسلامی حکومت

 

(۱۴) وصیت و وراثت

 

(۱۵) الدین

 

(۱۶) اصول اسلام

 

(۱۷) کلمہ طیبہ

 

(۱۸) الدین پیر

 

(۱۹) ارشادات صدیقی

 

(۲۰) صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کیلئے

 

(۲۱) صدائے معرفت حق ہے رازداروں

 

(۲۲) دین فطرت

 

کیلئے

 

(۲۳) ابلیس ازم

 

(۲۴) شراب خوری

 

(۲۵) رشوت خوری

 

(۲۷) غیبت

 

(۲۶) جوا بازی

 

(۲۸) شادی

31(۲۹) بدعت

 

(۳۱) عبد المیلاد

 

(۳۳) زمزمه محبت

 

(۳۵) ترجمه و شرح فصوص الحکم

 

(۳۷) معیار الكلام

 

(۳۲) نسیم عرفان

 

(۳۴) زفرات الاشوق

 

(۳۶) معيار الحق

 

(۳۸) مشاجرات صحابه

مولانا حسرت صدیقی کی چند نثری تصانیف کا ادبی ،لسانی و تنقیدی جائزہ یہاں پیش کیا جاتا ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگانا آسان ہو گا کہ آزادی کے بعد مشائخ حیدرآباد نے اردو کے علاوہ عربی فارسی، ہندی وغیرہ میں شعر و ادب کے سفینہ کو جاری رکھنے میں کس کد و کاوش اور جستجو سے کام لیا اور اپنی مختلف و متنوع تخلیقات کے ذریعہ اردو کی خدمت کو شعار بنایا۔ مولانا حسرت صدیقی نے جن موضوعات کو منتخب کیا ان میں تفسیر قرآن، حدیث، اصول حدیث، اسلامی قانون، حکمت و مناظره، عقائد اسلامی ، ناسخ و منسوخ ، اخلاقیات، سماجیات، تصوف، توحید، سماع کلمہ طیبہ معراج النبی ، فلسفہ و کلام ، سائنس، وغیرہ شامل ہیں۔

 

تفسیر صدیقی ( اردو )

 

مولانا حسرت صدیقی کو قرآنی علوم و افکار سے بے پناہ لگاؤ اور والہانہ شغف تھا تفسیر صدیقی مولانا کی قرآنی فکر کی آئینہ دار ہے۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں قرآن کی مختلف اسلوب و طرز میں تفاسیر لکھی گئیں جن میں زمانے کے تقاضوں کی بھر پور رعایت بھی رکھی گئی اور قرآن پر ہونے والے اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا مولانا حسرت صدیقی کی تفسیر قرآن بھی اس سلسلہ کی ایک مضبوط کڑی ہے اگر چیکہ اس تفسیر میں تفسیر کی تعریف، غرض و غایت، و معنویت وافادیت کا واضح طور پر کوئی تذکرہ نہیں ملتا جس کے مطالعہ سے ایک قاری کو اس علم کے مبادیات و قواعد و فوائد سے آگاہی ہوتی تاہم اس وقت دستیاب تفسیر صدیقی کے آغاز میں علامہ صدیقی کا مقدمہ ملتا ہے جس میں قرآن کی فصاحت و بلاغت اور اس کے اعجاز کے حوالے سے گفتگو کے تسلسل میں معجزہ کی تعریف کے ساتھ اس نکتہ کی وضاحت بھی ملتی ہے

متعلقہ خبریں

Back to top button