جنرل نیوز

تعطیلات بچوں کی دینی و دنیوی تربیت کی منصوبہ بندی کا سنہری موقع فراہم کرتی ہیں۔ فکری نشست گے دوران گفتگو مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا اظہار خیال

تعطیلات بچوں کی دینی و دنیوی تربیت کی منصوبہ بندی کا سنہری موقع فراہم کرتی ہیں۔ فکری نشست گے دوران گفتگو مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا اظہار خیال

حیدرآباد 17اپریل (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے سالانہ امتحان کا اختتام اور ہماری مصروفیات کی فکری نشست گے دوران گفتگو بتلایا کہ آج کے عدیم الفرصت دور میں اگر فرصت کے کچھ لمحات میسر آ جائیں اور اہل خانہ مل جل کر کچھ وقت اکھٹے گزار سکیں تو بلاشبہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہے۔ اسکولوں میں ہر سال گرمیوں کی تعطیلات کی آمد جہاں طالب علموں، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے کارکنان کے لیے باعثِ مسرت ہوتی ہیں وہاں والدین کی ذمہ داریوں میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ روزمرہ کے معمولات میں والدین کے لیے بچوں کی دینی و دنیوی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ان کی نصابی مصروفیات کے باعث کسی بھی مزید تربیتی منصوبہ پر عمل کرنا ممکن نہیں ہوتا، نہ ہی بچوں کو تعلیمی مصروفیت اور وقت کی قلت کے باعث یکسوئی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اس جانب بھر پور توجہ دے سکیں۔ لہذا تعطیلات بچوں کی دینی و دنیوی تربیت کی منصوبہ بندی کا سنہری موقع فراہم کرتی ہیں۔ اس لیے والدین ایک واضح عملی لائحہ عمل تیار کر کے گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے علاوہ بچوں کی تربیت، کردار سازی اور انفرادی اصلاح کی کامیاب کوشش کر سکتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کے لیے انہیں درج ذیل نکات پر عمل کرنا چاہیے:تعطیلات میں بچوں کی تربیت کا پہلا مرحلہ شب و روز کے نظام الاوقات کا تعین ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی عمر، تعلیم اور مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کی مشاورت سے ان کے سونے جاگنے کے اوقات مقرر کریں۔والدین بچوں کے اسکول کے ہوم ورک کی مرحلہ وار تقسیم کرکے اپنی نگرانی میں روزانہ تھوڑا تھوڑا کام مکمل کروائیں۔ بچوں میں مطالعے کا ذوق بڑھانے کے لیے انہیں اچھی لائبریری سے متعارف کروائیں اور معیاری کتب منتخب کرنے میں ان کی مدد کریں تا کہ اسلامی لٹریچر اور علم کی ایک وسیع دنیا تک ان کی رسائی ممکن ہو سکے۔انہیں پنجگانہ نماز کا عادی بنائیں اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین بچوں کو نماز کی تاکید کی بجائے ان کے ساتھ ادائیگی نماز کو معمول بنائیں تا کہ بچوں میں نمازکی عادت پختہ ہو سکے۔ ان کے دن کا آغاز نمازِ فجر سے کروائیں۔ یہ بہترین اور بابرکت وقت بچوں کو سونے کی نذر نہ کرنے دیں۔ بچوں کو بر وقت اُٹھنے اور ادائیگی نماز کی حوصلہ اِفزائی کے لئے گاہے بگاہے انعام بھی دیں۔ جب ان کی یہ عادت پختہ ہو جائے تو اپنے بچوں کی فجر کے وقت باری باری اُٹھانے کی ذمہ داری لگائیں تاکہ ان میں احساسِ ذمہ داری اور ایک دوسرے کے درمیان مروت اور نیکی کے تعاون کا جذبہ پیدا ہو۔ والد کا فرض ہے کہ بیٹوں میں باجماعت نماز کی عادت پختہ کرنے کے لیے انہیں مسجد میں ساتھ لے کر جائے انہیں مسجد جانے، نماز پڑھنے اور امامت کے آداب بھی سکھائے۔ گھر میں فیملی کے ساتھ بھی کبھی کبھار باجماعت نماز ادا کی جا سکتی ہے۔بچوں میں قرآن مجید سے قلبی لگائو اور محبت پیدا کرنے کے لیے والدین روزانہ بچوں سے تلاوت کروانے کے ساتھ خود بھی قرآن مجید کی تلاوت کریں، چاہے دو آیات ہی کیوں نہ ہوں اور جمعہ کے دن خاص طور پر سورۂ الکہف کی تلاوت کر کے سعادت و برکت حاصل کریں۔

بچوں کے ساتھ روزانہ کسی پارک ، نہر کے کنارے یا ساحل سمندر پر جانے کا پروگرام بنائیں۔کیوں کہ کھلی فضا میں چہل قدمی خالق کائنات کے قریب ہونے کا موجب بنتی ہے اور مناظرِ فطرت کا مشاہدہ جسمانی اور ذہنی صحت پر شاندار اثرات مرتب کرتا ہے۔ خاص طور پر صبح صبح تازہ پھولوں کا کھلنا، چرند پرند کا علی الصبح بیدار ہونا، سورج، چاند، ستاروں سمیت پوری کائنات کا آفاقی نظام فطرت کی پیروی کرنا بچوں کو اصولوں کی پاسداری کرنا سکھاتا ہے۔

 

بچوں کی ذہانت کو پرکھنے اور ان میں حکمت و تدبر اور معاملہ فہمی پیدا کرنے کے لیے والدین اپنے تجربات، مشاہدات کو آپس میں زیرِ بحث لاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے گھریلو مسائل ڈسکس کریں۔ اس پر ان سے مشورہ لیں اور گزشتہ کل کا بھی جائزہ لیں کہ اپنے آج کو کل سے کیسے بہتر بنائیں۔ علاوہ ازیں اپنی نگرانی اور توجہ سے بچوں کو یہ احساس دلائیں کہ وہ گھر میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوںکے لیے راعی (نگہبان) ہیں۔ لہٰذا انہیں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ شفقت و محبت اور تحمل و بردباری سے کام لینا چاہیے۔بچوں کی تربیت کے لیے کچھ خاص پہلو ایسے ہوتے ہیں جن پر تعطیلات میں ہی توجہ دی جا سکتی ہے مثلاً چھٹیوں میں سب اہل خانہ ناشتہ اور دونوں وقت کا کھانا اکٹھے کھانے کا معمول بنائیں، اس سے باہمی محبت میں اضافہ ہو گا۔ تعلیمی مصروفیات کی بنا پر بچے گھر کے کاموں میں نہ تو دلچسپی لیتے ہیں اور نہ ہی گھریلو ذمہ داریوں میں زیادہ اہم کردار ادا کر پاتے ہیں۔ لہذا تعطیلات کا فائدہ اٹھا کرانہیں اپنے کمرے کی صفائی، مہمانوں کی خاطر تواضع اور استعمال کی دیگر اشیاء کی دیکھ بھال سکھائی جا سکتی ہے۔والدین کو چاہیے کہ گھر میں اگر بزرگ افراد جیسے دادا دادی یا نانا نانی موجود ہوں تو ان سے متعلق ذمہ داریاں پوری کرنے میں بھی بچوں کو شامل کریں مثلاً ان کے پاس وقت گزارنا، کھانا دینا، پانی پلانا اور صبح صبح انہیں اخبار پڑھ کر سنانا۔ ایسے سنہری لمحات بچوں کی تربیت کے لیے بہت ضروری ہیں۔

بچوں کی صرف ضروریات ہی پورا کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ انہیں وقت اور توجہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے لہٰذا والدین اپنی مصروفیات میں سے بچوں کے لیے وقت نکال کر انہیں تفریحی مقامات کی سیر کرانے کے ساتھ ساتھ ایسے مقامات کی بھی سیاحت کروائیں جن کے ذریعے انہیں اپنے ماضی اور تاریخ کا علم ہو سکے۔ تاکہ تعطیلات میں بھی تعلیم سے ان کا لگائو برقرار رہے۔رشتہ داروں سے میل جول اور ملاقات کے آداب سکھانے کے لیے انہیں رشتہ داروں سے ملاقات کروانے لے کر جائیں، اس سے خونی رشتوں کی اہمیت، صلہ رحمی اور بھائی چارے کے جذبات پروان چڑھیں گے۔

 

والدین بچوں کی دوستیاں اور ان کی صحبت چیک کرنے کے لیے کبھی کبھار ان کے دوستوں کو گھر بلوائیں، ان سے ملیں، ان کے ساتھ کچھ وقت گزاریں، ان کی عزت کریں تاکہ ان کا اعتماد بڑھے۔ بچوں کے دوستوں کے گھر والوں سے بھی تعلقات بہتر رکھیں۔لیکن اگر والدین ان کے گھر کے ماحول سے مطمئن نہیں تو بچے کو بُرا بھلا نہ کہیں بلکہ حکمت و تدبر سے کام لے کر اپنے بچوں کو ایسی دوستی سے دور رکھیں تاکہ والدین اور بچوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ٹھیس نہ پہنچے۔

 

چھٹیوں میں والدین بچوں کو مختلف ہنر سکھا سکتے ہیں۔ مثلاً خوش خطی، مضمون نویسی، تجوید، آرٹ کے کام، بچیوں کو سلائی کڑھائی، کپڑوں کی مرمت، مہندی کے ڈیزائن وغیرہ۔ گھر میں اگر لان یا کیاری کی جگہ ہو تو والدین بچوں کو پودے اُگانے اور ان کی نگہداشت کرنا بھی سکھا سکتے ہیں۔

 

الغرض فرصت کے لمحات خصوصاً تعطیلات میں بچوں کی تربیت کے پیش نظر انہیں توجہ دینا ان کا بنیادی حق اور تربیت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ دو اڑھائی ماہ کی طویل چھٹیوں میں والدین مذکورہ بالا نکات پر عمل کر کے بچوں کی بہترین تربیت کر سکتے ہیں۔

 

غیرمسلم اداروں کے تحت جاری اسکولوں میں اسلامی عقائد کی فکر نہیں کی جاتی۔ ان اسکولوں میں پڑھنے والے اور عام طلبہ کے لئے بھی تعطیلات ایسا بہترین موقع ہے جب وہ دینی احکام سیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ والدین کو اس جانب خصوصی توجہ دینا چاہئے۔

 

 

 

والدین اور سرپرستوں کو اولاد کے ایمان وعقائد، دین واخلاق اور ان کے اسلامی تشخص کی بقاء کی فکر کرنا چاہئے۔ تصویر : آئی این این

 

انگریزی تاریخ کے اعتبار سے مئی ایسا مہینہ ہے، جس میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں گرمائی تعطیلات کے نام سے تقریباً ڈیڑھ مہینے چھٹی دی جاتی ہے۔ اکثر طلبہ اس طویل تعطیلی ایام کو بے مقصد گزار دیتے ہیں، زیادہ سے زیادہ اپنے دوست واحباب، رشتہ داروں یا سرپرستوں کے ساتھ سیر وتفریح کا پروگرام بنایاجاتا ہے، مشہور مقامات کو دیکھنے، اورتقریبات میں شرکت کرنے نیز کھیل کود کے ذریعے ذہنی آسودگی حاصل کی جاتی ہے۔ کوشش رہتی ہے کہ پورے سال تعلیمی نظام کی پابندی سے دل ودماغ پر جو تھکاوٹ ہے وہ کافور ہوجائے اور آئندہ سال تازہ دم ہو کر علمی سفرکا آغاز کرنے کے لائق ہوسکے۔ اسی پروگرام کی ترتیب اور اس کی انجام دہی میں یہ طویل مدت گزر جاتی ہے اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا۔

ان ہی باتوں کے پیش نظر ہمارے بزرگوں نے سر پرستوں کو ہدایت دی ہے کہ گرمائی تعطیلات میں اپنے بچوں کے دین واخلاق کو بہتر بنانے کی سعی کریں، صاحبِ حیثیت افراد خود اپنے گھروں میں ایسے علماء اور مربی کا انتظام کریں جو بہتر اور مخلصانہ انداز میں ان کی تربیت کرسکیں ورنہ بعض ملی ودینی اداروں کی جانب سے اجتماعی طور پر تربیتی کیمپوں میں انہیں شریک کرائیں۔ اس سے طلبہ کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی معرفت حاصل ہوگی، ضروری حد تک اسلامی طور طریقے اور اس کے اصول وآئین سے واقف ہوں گے۔

 

یہ بھی پڑھئے: ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگوں کو نماز پڑھانے کے لئے امام نہیں ملےگا

 

مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا سرمایہ ایمان اور عمل صالح ہے۔ ایک شخص اگر انجینئر، ڈاکٹر اور پروفیسر ہوجائے یا اپنی دنیوی محنت کے نتیجے میں اچھے عہدے کا مالک بن جائےلیکن وہ اسلامی تعلیمات اور ضروری احکام سے ناواقف ہو، انبیاء، صحابۂ کرام، خلفائے راشدین اور بزرگوں کی سیرت کو وہ نہ جانتا ہو تو ایسے علم اور عہدے کا کیا حاصل؟دنیا کی چند بہاریں دیکھنے کے بعد آخرت کی زندگی شروع ہوگی تو وہ ناکام اور نامراد ہوگا ؛ حالاں کہ یہی ابدی زندگی ہے۔ بلاشبہ دنیوی علوم و فنون اور عصری تعلیم جائز ہی نہیں ؛ بلکہ اس کا سیکھنا حالات کا اہم تقاضا ہے تاہم یاد رکھنا چاہئے کہ ایک مسلمان پر سب سے پہلے ایسی تعلیم کا حصول لازم ہے، جو بندوں کو خدا سے مربوط کرسکے اور دین اسلام سے اجنبیت ختم ہو۔ قرآن کریم میں جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ یہ تھی’’پڑھئے اپنے اس رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ ‘‘(العلق :۱) پیدا کرنا اور پھرساری نعمتوں سے نوازنا یہ عظیم احسان ہے جو سارے احسانات سے برتر ہے لہٰذا جس خدانے یہ احسان کیا ہے، سب سے پہلے اس کو راضی کرنے والی تعلیم حاصل کی جائے تاکہ بعد میں دنیوی علوم وفنون اور علو مراتب سے ایمان وعقائد میں کوئی فرق نہ آسکے۔ اگر بچپن میں اس کا انتظام نہ ہوا، یا غفلت کے سبب اس کی طرف توجہ نہ کی گئی تو جب بھی اس کا موقع ملے فوری طور پر اس کا نظم کیا جانا چاہئے۔

والدین اور سرپرستوں کو چاہئے کہ اپنی اولاد کے ایمان وعقائد، دین واخلاق اور ان کے اسلامی تشخص کی بقاء کی فکر کریں۔ یہ فکر دنیا اور اس کے اسباب ووسائل کی فکر پر غالب رہنی چاہئے کہ یہی دنیا وآخرت میں سرخروئی اور حقیقی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ جس طرح ایک شخص اپنی اولاد کے مستقبل کے بارے میں ترقیاتی پروگرام ترتیب دیتا ہے اوراس کی تکمیل کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے تاکہ اس کے بعد بچے راحت کی زندگی گزار سکیں، ٹھیک اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ اپنی اولاد کے ایمان کی بقاء اور دین و اخلاق سے متعلق سوچنا چاہئے کہ ان کے بعد ان کی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کس طرح کی جائے۔ قیامت میں باپ سے اولاد کے متعلق سوال کیا جائے گاکہ تم نے بچوں کو کیا تعلیم دی اورکیسا ادب سکھایا؟ہر ماں باپ سے اولاد کے ایمان وعقائد کے بارے میں پوچھا جائے گا، اس لئے بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینا، علم دین سکھانا اور اسلامی آداب سے مزین کرنا بہت ضروری ہے۔ جس نے اپنی اولاد کو ادب سکھایا، اسلامی تہذیب اور اسلامی تعلیمات سے آراستہ کیا اس نے گویا ان کو لازوال نعمت عطا کی۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ’’والدین کا بہترین عطیہ اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت ہے۔ ‘‘

قرآن نے مسلمانوں کو اپنے ساتھ اپنے کنبہ اور گھر والوں کو بھی آگ کے ایندھن سے بچانے کی فکر پیدا کرنے کی تلقین کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اے ایمان والو!تم اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ ‘‘ (التحریم:۶)

یہ حقیقت ہے کہ آج (غیرمسلم) عصری درسگاہوں میں دین واخلاق کی تعلیم نہیں ہے جس کے سبب ان اداروں میں پڑھنے والے مسلم طلبہ اسلام کے بنیادی احکام اور ابتدائی تعلیمات سے بھی ناواقف ہوتے ہیں خواہ وہ کسی کلاس میں پڑھتے ہوں اسلئے ایسے اداروں میں پڑھنے والے بچوں کیلئے دینی تعلیم کا انتظام والدین اور سرپرستوں کو ہی کرناہوگا۔ اسی کے ساتھ مختلف جماعتوں، تنظیموں اور سماجی ادارو ں کی جانب سے بھی اس کا نظم کیاجاناچاہئے۔ گرمائی تعطیلات میں طلبہ کو دین واخلاق، اسلامی تہذیب وتاریخ سے روشناش کرانے کی اجتماعی یا انفرادی جو بھی کوششیں ہوں، لائق تحسین اور قابل قدر ہیں۔ اس سے بہتر سماج کی تشکیل میں کافی مدد ملے گی کیوں کہ یہی نوجوان اور طلبہ مستقبل کے قائد اور معمار ہیں۔ جس ذہنیت کے ساتھ ان کی پرورش اور تربیت کی جائے گی مستقبل میں وہی تاریخ کا اہم باب ہوگا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button