دارالسلام کے احتجاجی جلسہ میں بڑی تعداد میں شرکت سے حکومت کو پیام دینے یونائٹیڈ مسلم فورم کی اپیل

File photo
وقف ترمیمی قانون کی واپسی تک پوری شدت سے جدوجہد جاری رکھی جائے
دارالسلام کے احتجاجی جلسہ میں بڑی تعداد میں شرکت سے حکومت کو پیام دینے یونائٹیڈ مسلم فورم کی اپیل
حیدرآباد 18 اپریل (پریس نوٹ) یونائٹیڈ مسلم فورم نے وقف قانون کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیر اہتمام ہفتہ 19 اپریل کو دار السلام میں منعقد ہونے والے احتجاجی عوامی جلسہ عام میں بڑی تعداد میں شرکت کی اپیل کی ہے۔ فورم کے ذمہ داران مولانا مفتی سید صادق محی الدین فہیم (صدر)، مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری، مولانا سید شاه حسن ابراهیم حسینی قادری سجاد پاشاہ، مولانا شاہ محمد جمال الرحمن مفتاحی، مولانا محمد حسام الدین ثانی جعفر پاشاہ، جناب ضیا الدین نیئر، جناب سید منیر الدین احمد مختار (جنرل سکریٹری)، مولانا سید شاہ ظہیرالدین علی صوفی قادری، مولانا سید شاہ فضل الله قادری الموسوی، مولانا محمد شفیق عالم خان جامعی، مولانا سید مسعود حسین مجتہدی، مولانا مفتی محمد عظیم الدین انصاری، مولانا سید احمد الحسینی سعید قادری، مولانا سید تقی رضا عابدی، مولانا ابوطالب اخباری، مولانا میر فراست علی شطاری ایڈوکیٹ سپریم کورٹ، جناب ایم اے ماجد، مولانا خواجہ شجاع الدین افتخاری حقانی پاشاه، مولانا ظفر احمد جمیل حسامی، مولانا سید وصی الله قادری نظام پاشاه، مولانا مکرم پاشاه قاری تخت نشین، مولانا مفتی معراج الدین علی ابرار، مولانا عبدالغفار خان سلامی، جناب بادشاہ محی الدین، ڈاکٹر نظام الدین، جناب شفیع الدین ایڈوکیٹ، جناب ضیاء الدین آرکیٹکٹ، مولانا سید شیخن احمد قادری شطاری کامل پاشاہ، مولانا سید قطب الدین حسینی صابری، مولانا زین العابدین انصاری، ڈاکٹر مشتاق علی، جناب نعیم صوفی اور جناب خلیل الرحمٰن نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ اس سیاہ قانون پر عدالت کے موقف کو دیکھتے ہوئے حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔ حکومت کچھ دنوں کے لئے معاملہ کو ٹالنا چاہتی ہے۔ موجودہ چیف جسٹس آئندہ ماہ سبکدوش ہونے والے ہیں۔ ٹال مٹول کے ذریعہ مدت تک مقدمہ کو الجھاکر رکھنا اور عبوری راحت کے ذریعہ اس غیر دستوری قانون کے خلاف عوامی رد عمل کو کمزور کرنا حکومت کا مقصد ہے۔ فورم کے ذمہ داروں نے کہا کہ عدالت کے اس قانون پر فی الفور کوئی روک نہیں لگائی البتہ حکومت کے داخل کردہ اس عہد نامہ پر اکتفا کیا کہ وہ قانون کی منتخب شقوں پر عمل نہیں کرے گی۔ حکومت کی یہ چال اس قانون کے خلاف عوامی تحریک کو سرد کرنے کی ہے، اس کے لئے حکومت کے عزائم ٹھیک نہیں ہیں، پوری شدت کے ساتھ جدوجہد کو جاری رکھا جانا چاہییے۔ دارالسلام کے جلسہ کے ذریعہ یہ پیغام دیا جائے کہ اس قانون کی دستبرداری تک مسلمان اور ملک کے تمام انصاف پسند شہری خاموش نہیں رہیں گے۔
وزیر اعظم اکثر یہ کہتے ہیں کہ بٹیں گے تو کٹیں گے لیکن وہ ملک کے مسلمانوں کو بائنے کی کوشش کر رہے ہیں، کہیں پسماندہ مسلمان تو کہیں فرقہ بواہیر کے نام پر ان کو تقسیم کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں میں مختلف مکاتب و مسالک ضرور ہیں، لیکن اسلام کے بنیادی اصولوں پر سب ایک ہیں ۔ دارالسلام کے مرکزی احتجاجی جلسہ سے یہ پیام دیا جائے کہ اس قانون کے خلاف نہ صرف سارے مسلمان بلکہ ملک کی جمہوریت دستور پر ایقان رکھنے والے تمام ہندوستانی بلالحاظ مذہب ملت و علاقه اس کے خلاف ہیں۔ عدالت کے ذریعہ وقت کو خریدنے حکومت کی کوششوں کا موثر جواب عوامی تحریکات ہیں ۔ قانونی جدوجہد کے محاذ کے ساتھ عوامی جدوجہد ضروری ہے۔
دار السلام کا یہ جلسہ وقف سیاہ قانون کے خلاف ایک مثال قائم کرے۔ اس لئے تمام فکر مند شہریوں سے اس جلسہ میں بھاری تعداد میں شرکت کی اپیل کی جاتی ہے تاکہ مرکزی حکومت کو مسلمانوں کے غم و غصہ کو دکھایا جاسکے۔