درود وسلام بھیجنے سےنیکیوں کا پلڑا وزنی ہوجائے گا۔ مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

درود وسلام بھیجنے سےنیکیوں کا پلڑا وزنی ہوجائے گا۔ مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد 20اپریل (پریس ریلیز ) چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آج صدر دفتر بنجارہلزروڑنمبر12پرمنعقدہ فکری نشست گے دوران گفتگو بتلایا کہ ہمارے دلوں کی ٹھنڈک، کائنات کی رحمت، محبوبِ خدا، سید الانبیاء، امام المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادتِ باسعادت بلاشبہ عالمِ انسانیت کے لیے سب سے بڑی نعمت اور اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین رحمت ہے۔اکثر علمائے کرام اور مؤرخین کے مطابق آپ ﷺ کی ولادت 12 ربیع الاول کو ہوئی۔ اگرچہ کچھ روایات میں 8، 9 یا 17 ربیع الاول کا ذکر بھی آتا ہے، لیکن 12 ربیع الاول کو ہی سب سے زیادہ تسلیم کیا گیا اور اسی دن کو اہلِ محبت بڑے ادب و احترام سے مناتے ہیں۔ *عیسوی تاریخ کے مطابق:* 12 *ربیع الاول، عام الفیل کا دن عیسوی کیلنڈر میں* :*20 اپریل 571ء (پیر کا دن) کے مطابق بنتا ہے۔* دن کے بارے میں حدیثِ مبارکہ:آپ ﷺ نے خود فرمایا:
> ”یہ وہ دن ہے جس دن میری ولادت ہوئی، اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔“
(صحیح مسلم – حدیث 1162)
*مستند حوالہ جات:*
1. امام ابن اسحاق (م 768ھ) – سب سے پہلے سیرت نگار جنہوں نے سیرتِ طیبہ قلم بند کی۔
2. امام ابن ہشام (م 833ھ) – ابن اسحاق کی سیرت کو مرتب کیا اور 12 ربیع الاول کی تصدیق کی۔
3. امام طبری (م 923ھ) – مشہور مؤرخ، "تاریخ طبری” میں اس تاریخ کا ذکر کیا۔
4. امام ابن کثیر (م 1373ھ) – "البدایہ و النہایہ” میں 12 ربیع الاول کو قوی ترین روایت قرار دیا۔
*یہ دن اہلِ محبت کے لیے خوشیوں، درود و سلام، اور رب کریم کا شکر ادا کرنے کا دن ہے کہ اس نے ہمیں نبی رحمت ﷺ کا امتی بنایا* ۔
*یا رسول اللہ ﷺ! آپ پر لاکھوں درود و سلام* !
*آپ ﷺ کی ولادت کا صدقہ ہم سب کی زندگیوں میں برکت، راحت، اور نور عطا فرمائے* ۔ *آمین* ۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لاکھوں درود و سلام بھیجنے کےسلسلے میں چند ایمان اَفروز واقعات پیش خدمت ہیں۔
1۔ مواھب اللدنیہ میں امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ قیامت کے دن کسی مومن کی نیکیاں کم ہو جائیں گی اور گناہوں کا پلڑا بھاری ہوجائے گا تو وہ مومن پریشان کھڑا ہو گا۔ اچانک آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام میزان پر تشریف لائیں گے اور چپکے سے اپنے پاس سے بند پرچہ مبارک نکال کر اس کے پلڑے میں رکھ دیں گے۔ جسے رکھتے ہی اس کی نیکیوں کا پلڑا وزنی ہوجائے گا۔ اس شخص کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ یہ کون تھے جو اس کا بیڑا پار کر گئے۔ وہ پوچھے گا آپ کون ہیں؟ اتنے سخی، اتنے حسین و جمیل آپ نے مجھ پر کرم فرما کر مجھے جہنم کا ایندھن بننے سے بچا لیا اور وہ کیا پرچہ تھا جو آپ نے میرے اعمال میں رکھا؟ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہو گا : میں تمہارا نبی ہوں اور یہ پرچہ درود ہے جو تم مجھ پر بھیجا کرتے تھے۔
2۔ درود شریف پر لکھی جانے والی عظیم کتاب ’دلائل الخیرات‘ کے مؤلف امام جزولی رحمۃ اﷲ علیہ ہیں جن کا مزارِ اقدس مراکش میں ہے۔ وہ اس کتاب کی تالیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ ایک سفر میں تھے دورانِ سفر نماز کا وقت ہوگیا آپ وضو کرنے کے لئے ایک کنویں پر گئے، جس پر پانی نکالنے کے لئے کوئی ڈول تھا اور نہ ہی کوئی رسی۔ پانی نیچے تھا اسی سوچ میں تھے کہ اب پانی کیسے نکالا جائے۔ اچانک ساتھ ہی ایک گھر کی کھڑکی سے ایک بچی دیکھ رہی تھی جو سمجھ گئی کہ بزرگ کس لئے پریشان کھڑے ہیں انہیں پانی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ وہ نیچے اتری اور کنویں کے کنارے پہنچ کر اس کنویں میں اپنا لعاب پھینک دیا اسی لمحے کنویں کا پانی اچھل کر کنارے تک آگیا اور ابلنے لگا۔ امام جزولی رحمۃ اﷲ علیہ نے وضو کر لیا تو بچی سے اس کرامت کا سبب پوچھا۔ اُس نے بتایا کہ یہ سب کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک پر کثرت سے درود بھیجنے کا فیض ہے۔ امام جزولی رحمۃ اﷲ علیہ نے اسی وقت عزم کر لیا کہ میں اپنی زندگی میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک کی ایک عظیم کتاب مرتب کروں گا اور ’دلائل الخیرات‘ جیسی عظیم تصنیف وجود میں آ گئی۔(جزولی، دلائل الخيرات : 12)
3۔ امام ابن حجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صالح شخص نے کسی کو خواب میں دیکھا اور اس سے پوچھا کہ مرنے کے بعد تیرا کیا حال ہوا اس نے بتایا کہ اﷲ سبحانہ و تعاليٰ نے میری بخشش فرما کر جنت میں بھیج دیا۔ صالح شخص نے اس سلوک کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ جب فرشتوں نے میرے اعمال تولے، میرے گناہوں کو شمار کیا اور میرے پڑھے ہوئے درود پاک بھی شمار کئے تو سو درود گناہوں سے بڑھ گئے جبکہ باقی سب نیک اعمال سے میرے گناہ زیادہ تھے۔ جونہی درود پاک کا شمار بڑھ گیا تو اﷲپاک نے فرشتوں کو حکم دیا کہ اس کا حساب کتاب ختم کر دو چونکہ اس کے درود بڑھ گئے ہیں اس لئے اس کو سیدھا جنت میں لے جاؤ۔
4۔ امام قسطلانی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی کتاب ’المواہب اللدنیہ‘ (1 : 40) میں فرماتے ہیں کہ جب آدمں کی تخلیق کے بعد حضرت حوا علیھا السلام کی پیدائش ہوگئی تو حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کا قرب چاہا۔ اﷲتعاليٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ پہلے ان کا نکاح ہوگا اور مہر کے طور پر دونوں کو حکم ہوا کہ مل کر بیس بیس مرتبہ میرے محبوب ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھیں۔ (ایک روایت میں تین تین مرتبہ بیان ہوا ہے۔) چنانچہ انہوں نے بیس مرتبہ یا تین مرتبہ درود پڑھا اور حضرت حواّ ان پر حلال ہو گئیں۔
(صاوی، حاشية علی تفسير الجلالين، 1 : 52)
5۔ امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ ایک بہت بڑے تاجر اور عالم تھے، وہ عربی ادب کے بہت بڑے فاضل اور شاعر بھی تھے۔ انہیں اچانک فالج ہوگیا۔ بستر پر پڑے پڑے انہیں خیال آیا کہ بارگاہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی ایسا درد بھرا قصیدہ لکھوں جو درود و سلام سے معمور ہو۔ چنانچہ محبت و عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوب کر 166 اشعار پر مشتمل قصیدہ بردہ شریف جیسی شہرت دوام حاصل کرنے والی تصنیف تخلیق کر ڈالی۔ رات کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں تشریف لائے اور امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا : بوصیری یہ قصیدہ سناؤ، عرض کیا : یا رسول اﷲصلی اﷲ علیک وسلم! میں بول نہیں سکتا فالج زدہ ہوں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے بدن پر پھیرا جس سے انہیں شفا حاصل ہو گئی۔ پس امام بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ نے قصیدہ سنایا۔ قصیدہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمال مسرت و خوشی سے دائیں بائیں جھوم رہے تھے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حالتِ خواب میں امام بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چادر (بردہ) عطا فرمائی۔ اسی وجہ سے اس کا نام قصیدہ بردہ پڑگیا۔ امام بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ صبح اٹھے تو فالج ختم ہو چکا تھا۔ گھر سے باہر نکلے، گلی میں انہیں ایک مجذوب شیخ ابو الرجاء رحمۃ اﷲ علیہ ملے اور امام بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ کو فرمایا کہ رات والا وہ قصیدہ مجھے بھی سناؤ۔ امام بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ یہ سن کر حیرت زدہ ہو گئے اور پوچھا آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ انہوں نے کہا : جب اسے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سن کر خوشی سے جھوم رہے تھے میں بھی دور کھڑا سن رہا تھا۔