خبر پہ شوشہ “طویلے کی بلا بندر کے سر”

کے این واصف
پچھلے ہفتہ اسی نیوز پورٹل پر خبر آئی کہ ضلع سنگاریڈی کسی مندر میں مورتی ٹوٹی ہوئی پائی گئی۔ اس پر نفرت پھیلانے کا ٹھیکا اٹھائے گروپ نے اس واقع کو مندر کے قریب واقع دینی مدرسہ کے طلباء کی کارستانی سمجھتے ہوئے فوری حرکت میں آگیا اور بغیر کسی تحقیق کے مدرسہ پر حملہ کرکے شدید توڑپھوڑ مچادی۔
اس پر پولیس فورس فوری طور پر حرکت میں آئی اورتحقیق کا آغاز کردیا۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ مندر کی مورتی کو مدرسہ کے طلباء نے نہیں بلکہ بندروں نے نقصان پہنچایا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگاکہ کچھ عرصہ قبل اسی نیوز پورٹل پر “کھودا پہاڑ نکلی بلی” کے عنوان سے ایک شوشہ شائع ہواتھا۔ جس میں بتایا گیا تھا حیدرآباد کے محلہ سید علی چبوترا کے کسی مندر میں گوشت کا ٹکڑا پایاگیا
جس پر بڑا احتجاج کھڑاہوگیا لیکن بھلا ہو سی سی ٹی وی کیمرے کا جس سے پتہ چلاکہ بلی گوشت کا ٹکڑا لیکر مندر میں آئی کچھ کھایا اور باقی چھوڑکر چلی گئی۔
بہر حال “برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر” کے مصداق فرقہ پرستوں کی نفرتی سوچ نے بے سوچے سمجھے مدرسہ کا مالی نقصان کردیا۔ یعنی یہ ایسا ہی ہوا جیسے “کھایا نہ پیا گلاس توڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
نیز ایک پرانی کہاوت بھی ہے “طویلے کی بلا بندر کے سر” لیکن متذکرہ واقع میں بندر کی بلا مدرسہ کے سر آئی۔ 😜