جو رکاوٹ تھی ہماری راہ کی راستہ نکلا اسی دیوار سے کیا مرکزی حکومت ذات پر مبنی مردم شماری فیصلے پر عمل آواری کرے گی؟

تحریر:سید سرفراز احمد
پہلگام حملے کے بعد بھارتی میڈیا ہاؤسس سے نفرت کے ساتھ ساتھ اس طرح کی گفت و شنید چل رہی تھی کہ جس سے محسوس ہورہا تھا کہ بھارتی فوج کا کام میڈیا ہاؤسس کی جانب سے ہی کیا جانے والا ہے۔درباری میڈیا چیخ چیخ کر اپنی آواز کو کمزور کرتی گئی۔لیکن سرکار کی جانب داری میں کسی قسم کی کمی ہونے نہیں دیا گیا۔بلکہ سرکار کی بار بار میٹنگوں پر بھی ایسے دھواں دھار بم پھوڑے جارہے تھے کہ اب کچھ بڑا ہونے والا ہے۔مزے دار بات تو یہ بھی تھی کہ بریکنگ پر بریکینگ نیوزیز چلاۓ جارہے تھے۔بالآخر سرکار نے بڑا بم ذات پر مبنی مردم شماری کے روپ میں پھوڑ ہی دیا۔شائد ہی کسی کو اس بات کی توقع تھی کہ سرکار ذات پر مبنی مردم شماری کا فیصلہ لینے والی ہے۔چونکہ ملک میں بحث و تکرار الگ رخ پر ہیں۔اور سرکار کے فیصلے الگ رخ پر۔آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ سرکار عوامی بحثوں کو درکنار کرتے ہوۓ ایک الگ ہی قسم کا فیصلہ وہ بھی بنا چوں چرا کیئے لے لیا گیا۔
اس ہفتے میں بدھ کے روز وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی کابینہ کے اجلاس میں ملکی سطح پر ذات پر مبنی مردم شماری کروانے کا فیصلہ لیا ہے۔سرکار کے فیصلے کی اہمیت اپنی جگہ لیکن نا مناسب وقت میں فیصلے نے اونگھتی آنکھوں کو بھی بیدار کرنے کا کام کیا ہے۔اس بات سے ہم سب واقف ہیں کہ اپوزیشن قائد راہل گاندھی نے ایک لمبے عرصہ سے ذات پر مبنی مردم شماری کروانے کا مطالبہ کرتے رہے۔اور یہاں تک کہا کہ ہم ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کرواکر رہیں گے۔بالآخر راہل گاندھی کی حجت پوری ہوگئی۔این ڈی اے سرکار نے ذات پر مبنی مردم شماری کروانے کا فیصلہ لے لیا ہے۔لیکن کچھ دلچسپ حقائق سوالات اور فیصلے کے متعلق سرکار کا رویہ ان سب پر بھی گفتگو اور تجزیہ کرنا ناگزیر ہے۔چونکہ فیصلہ لینا الگ بات ہے اور اس پر عمل درآمد ہونا الگ بات ہے۔
پہلی بات تو این ڈی اے سرکار نے ذات پر مردم شماری کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں لیا جب کہ کسی نے بھی اس وقت اس کا مطالبہ نہیں کیا۔پھر کیا وجہ رہی کہ سرکار پہلگام حملے کے بعد ہی اس کا فیصلہ کیوں لیا؟جب کہ جب جب راہل گاندھی ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کرتے تھے کوئی بھی بھاجپائی وزیر حامی نہیں بھرتا تھا۔اور سرکار بھی کبھی راہل گاندھی کے مطالبے کو عمل درآمد کی نظر سے نہیں دیکھا۔دوسری بات یہ کہ سرکار نے ذات پر مبنی مردم شماری کو ایک ایسے وقت میں فیصلہ لیا ہے کہ آنے والے مہینوں میں بہار اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔کیا سرکار اس مردم شماری سے سیاسی کارڈ کھیلنے جارہی ہے؟تیسری بات یہ کہ ملک میں مسلمان وقف ترمیمی بل کے خلاف ایک طویل صبر آزما تحریک چلارہے ہیں۔اور سرکار ذات پر مبنی مردم شماری کروانے کی تیاری کررہی ہے۔کیا سرکار اس تحریک کو کم زور کرنے کی کوشش کرنے جارہی ہے؟
لگ تو رہا ہے سرکار نے بہت ہی سوچھ بوجھ کے ساتھ ذات پر مبنی مردم شماری کروانے کا فیصلہ لیا ہے۔اگر سرکار ذات کی مردم شماری کرواتی ہے تو تب بھی سب سے ذیادہ فائدہ سرکار کو ہی حاصل ہونے والا ہے۔اور اگر ذات کی مردم شماری نہ کرواتی ہو تب بھی سرکار اپنے بہت سے فائدے اس فیصلے کی آڑ میں لینا چاہتی ہے۔چونکہ بہت سے مبصرین یہ کہہ رہے ہیں کہ بہار انتخابات کے پیش نظر این ڈی اے سرکار ذات پر مبنی مردم شماری کروانے جارہی ہے۔تاکہ پسماندہ یا پچھڑے طبقات کے ووٹ بینک کو اپنی جانب پر کشش بنایا جاسکے۔یہاں بھاجپا کو اس سے دو فائدے حاصل ہونگے۔ایک تو یہ کہ بھاجپا بہار میں اپنی چھاپ کو وسیع کرنا چاہتی ہے۔تاکہ وہ نتیش کے ساۓ کو اپنے سے دور کرتے ہوۓ اپنا وزیر اعلیٰ بنانا چاہتی ہے۔اور نتیش کو شنڈے کی طرح ریموٹ کا طوطا بناکر رکھنا چاہتی ہے۔تاکہ وہ چپ چاپ ہر تماشے کو صرف گھورتی آنکھوں سے دیکھتے رہیں۔ایک اور سیاسی کھیل یہ کہ بھاجپا مستقبل کے 2029 کے لوک سبھا کے کھیل کا آغاز ابھی سے کرنا چاہتی ہے۔اگر نتیش کو کھسیانی بلی کی طرح ہٹایا جاۓ گا تو خود بخود بھاجپا کا راستہ ہموار ہوجاۓ گا۔اور شائد بھاجپا چاہتی ہے کہ لوک سبھا میں نتیش کا صفایا ہوجاۓ اور بھاجپا کا علم بلند ہوجاۓ۔
نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے سرکار کی بے حسی پر مختلیف مبصرین کہہ رہے ہیں کہ بہلگام حملے کے بعد سرکار نے بڑے بڑے دعوے کیئے۔لیکن حملے کو گذرے پندرہ روز ہورہے ہیں لیکن صرف دعوؤں کی ہی بوچھار لگی ہوئی ہے۔اور سرکار نے ایک ایسے وقت میں مردم شماری کا فیصلہ لیا ہے جب کہ ملک بھر میں ہر طرف پہلگام کا سوگ منایا جارہا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ پہلگام حملے میں سرکار اپنی سکیورٹی کی ناکامی کو چھپانے کے لیئے ذات پر مبنی مردم شماری کا فیصلہ لیا ہے۔اگر ایسا نہیں بھی ہے تو سرکار کو پہلگام میں ہوۓ دہشت گردانہ حملے سے ذیادہ بہار چناؤ کی فکر لاحق ہے۔کیونکہ ذات پر مبنی مردم شماری کا فیصلہ یا تو پہلگام میں سکیورٹی چونک کی ناکامی سے بچنے کے دفاع میں لیا جارہا ہے۔یا پھر پہلگام حملے کو ہلکے میں لے کر سرکار پوری قوت بہار چناؤ پر صرف کرنا چاہتی ہے۔
بعض مبصرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک بھر میں وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں مسلمان جو تحریک چلارہے ہیں۔اس تحریک میں کئی ایک پس ماندہ ہندو طبقات و پچھڑے طبقات کے علاوہ دیگر سیکولر ہندو بھی شدت سے شرکت کرتے ہوۓ احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں۔سرکار ذات پر مبنی مردم شماری کرواکر ان پچھڑے طبقات کو اس تحریک سے دور کرنا چاہتی ہے۔مبصرین کی یہ بات بھی بہت حد تک درست ہوسکتی ہے۔بلکہ سرکار ذات پر مبنی مردم شماری جو ملک کے تمام مذاہب صرف اعلیٰ طبقات کو اس سے مستشنیٰ رکھتے ہوۓ دیکھا جاۓ تو قابل قبول سمجھا جاۓ گا۔اور جو اعلیٰ ذات کے طبقات ہیں وہ پہلے سے ہی بھاجپا کا ووٹ بینک رہا ہے۔جو اند بھکتی کے نشے میں چور ہیں۔ان تمام نکات کا جائزہ لینے پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سرکار نے ذات پر مبنی مردم شماری کا فیصلہ اپنے سیاسی مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوۓ لیا ہے۔اور اس مردم شماری کے فیصلے میں بھی اس بات کی بھر پور گنجائش باقی رہے گی کہ آیا سرکار ذات پر مبنی مردم شماری کرواۓ گی بھی یا نہیں؟یہ ایک سوالیہ نشان بن کر رہے گا جب تک کہ حکومت اس کی تاریخوں کا اعلان نہ کردے۔ورنہ پھر یہی سمجھا جاۓ گا کہ صرف گول مٹول کی سیاست ہے۔یا پھر ملک کی رعایا کو سرکار گم راہ کررہی ہے۔
اگر ہم ذات پر مبنی مردم شماری کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالیں گے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری سے سماجی انصاف کے راستے کھل جائیں گے۔اگر چہ اس فیصلے کو قومی مفاد اور سماجی انصاف کے تناظر میں دیکھا جاۓ تو یہ فیصلہ ملک کے حق میں بہتر ہے۔خاص طور پر ان پس ماندہ اور پچھڑے طبقات کے لیئے نفع بخش ثابت ہوگا جس سے پس ماندہ اور پچھڑے طبقات کی اصل تصویر خود بخود سامنے آجاۓ گی۔کہ کونسا مذہب اور اس کے ماننے والے کس حد تک پس ماندہ ہیں۔تعلیم ہو یا معیشت اقتصادی ترقی ہو یا خط غربت نوکری ہو یا بے روزگاری اس مردم شماری کے بعد سب کچھ صاف ہوجاۓ گا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کی آزادی کے بعد سے ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کا باقاعدہ اندراج نہیں کروایا گیا۔سال 2011 میں اس ملک میں آخری مرتبہ مردم شماری کی گئی تھی۔جس کو مکمل مردم شماری کا متبادل نہیں مانا گیا۔ٹھیک دس سال بعد یہ مردم شماری سال 2021 میں ہونا طئے تھا۔لیکن کویڈ کی وجہ سے آج تک بھی مردم شماری نہیں ہوسکی۔اگر اب ذات پر مبنی مردم شماری کے فیصلے پر عمل درآمد شروع ہوجاۓ گا تو اس سے پس ماندہ و پچھڑے طبقات کی قسمت بدلنا شروع ہوجاۓ گی۔اگر چہ کہ حکومت کی نیت صاف ہو۔ کیونکہ مردم شماری کو شفافیت کے ساتھ انجام تک پہنچانا حکومت کی خاص زمہ داری بنتی ہے۔بہر کیف دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت ذات پر مبنی مردم شماری کو کرواتی ہے یا نہیں۔یا پھر آئندہ چند دنوں میں حکومت کی نیت بھی سامنے آجاۓ گی کہ کیا وہ واقعی ذات پر مبنی مردم شماری کروانے کی خواہش مند ہے یا ملک کی عوام کو گم راہ کیا گیا۔سرکار کی شاطرانہ چال پر بقول شاعر اظہر عباس ؎
جو رکاوٹ تھی ہماری راہ کی
راستہ نکلا اسی دیوار سے