حضرت خواجہ بندہ نوازی گیسودارز رحہ شریعت و طریقت کے مجمع البحرین تھے،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا بیان

حضرت خواجہ بندہ نوازی گیسودارز رحہ شریعت و طریقت کے مجمع البحرین تھے،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا بیان
حیدرآباد 11مئی (پریس ریلیز ) چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے مرکزی دفتر بنجارہلزروڑنمبر12پرمنعقدہ فکری نشست بعنوان حضرت خواجہ بندہ نوازی گیسودارز رحہ حیات وخدمات پرروشنی ڈالتے ہوئے بتلایا کہ مخزنِ علم و عرفاں، پیکر خلوص و وفا، صاحبِ جود و سخا، عاشقِ مصطفی، صوفی باصفا، عابدِ بے ریا، عالم ربانی قطب الاقطاب ، شیخ المشائخ ، ابو الفتح ، صدر الدین ، ولی الاکبر الصادق سید محمد حسینی عرف حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز قدس سرہ کی تہہ دار فکر و شخصیت بہت سارے فضائل و کمالات اور نوع بہ نوع اوصاف و خصوصیات کی جامع تھی ۔ آپ شریعت و طریقت کے مجمع البحرین تھے ۔ علم و حکمت ، فضل و کمال ، سلوک و عرفان ، طریقت و معرفت ، ولایت و روحانیت اور زہد و تقویٰ کی ساری خوبیاں ایک مرکز پر سمٹ آئی تھیں ، جن کے سبب آپ کی شخصیت فائق الاقران بن گئی تھی ۔ آپ کی ذات اپنے اندر بڑی کشش اور وسعت و جامعیت رکھتی ہے ۔ آپ جامع العلوم و الفنون اور جامع الحیثیات و الکمالات تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اپنے وقت کے اکابر علماء و مصنفین اور عظیم المرتبت مشائخِ طریقت نے آپ کے علم و ولایت اور بلند علمی و روحانی مقام کا کھلے دل سے اظہار و اعتراف کیا ہے ۔ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کی ولادت 721 ہجری میں بمقام دہلی ہوئی ۔ جس وقت حضرت نظام الدین اولیاء کا وصال ہوا ، آپ چار سال کے تھے ۔ نسبی لحاظ سے آپ کا تعلق حسینی سادات سے ہے ۔ بائیسویں پشت میں جا کر آپ کا سلسلۂ نسب حضور نبی اکرم ﷺ سے مل جاتا ہے ۔ مذید انہوں نے بتلایا کہ آپ کا شمار جلیل القدر اصحابِ طریقت اور مایۂ ناز رجالِ علم و معرفت میں ہوتا ہے ۔ باطنی علوم کے ساتھ ظاہری علوم و فنون میں بھی آپ کا پایہ کافی بلند تھا ۔ آپ کی علمی جلالت تاریخی مسلمات سے ہے ۔ آپ کی گراں قدر تصانیف اور آپ کی نوکِ قلم سے وجود میں آنے والے مختلف علوم و فنون پر مشتمل تقریباً ایک سو کتب و رسائل اس بات کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے کافی ہے کہ آپ صرف مسندِ ولایت و روحانیت کے ہی صدر نشیں نہ تھے ، بلکہ اپنے وقت کے جلیل القدر عالم و فاضل ، بلند پایہ محدث و مفسر ، بے مثال فقیہ ، بلند پایہ محقق و مفکر اور اعلیٰ درجہ کے مصنف بھی تھے ۔ مروجہ دینی و ادبی علوم کے جملہ شعبوں پر آپ کی نظر تھی ۔ کسی بھی علمی موضوع پر مجتہدانہ شان اور عالمانہ طمطراق کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے ۔ آپ کے مجموعۂ ملفوظات ” جوامع الكلم ” کا مطالعہ کرنے والے قارئین آپ کی علمی جلالت اور عالمانہ شان و شوکت کا اعتراف کرنے پر خود کو مجبور پائیں گے ۔ جنرل سکریٹری لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن محترمہ ڈاکٹر عاصم ریشماں نے بتلایا کہ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے کے وہ جلیل القدر عارف اور ولیِ کامل تھے کہ ان کی عظمت و جلالت کا اندازہ کرنا دشوار ہے ۔ آپ جامعِ کمالاتِ ظاہری و باطنی تھے ۔ علومِ ظاہری میں نہایت اونچا درجہ رکھتے تھے ۔ چشتیہ طریقہ کے بزرگوں میں حضرت خواجہ حسن بصری سے حضرت خواجہ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی تک کسی نے تصنیف و تالیف کی طرف توجہ نہیں فرمائی ، حالاں کہ ان میں سے ہر بزرگ اپنے وقت کے محقق اور درجۂ اجتہاد کے مالک تھے ۔ لیکن حضرت خواجہ گیسو دراز نے بڑی اور چھوٹی تقریباً ایک سو پانچ ( 105 ) کتابیں تصنیف فرمائیں ۔ آپ اپنے عہد کے ایک عظیم ترین قطبِ کامل اور عارف و واصل ہوئے ہیں ۔ آپ شریعت و طریقت کے جامع اور حقیقتِ حق و اسرارِ حقیقت کے محرمِ راز تھے ۔ آپ یکتائے روزگار تھے اور ایک ایسا مقام رکھتے تھے جس کی نظیر اولیائے کرام میں بہت کمیاب ہے ۔ آپ علوم و فنون میں ایک کامل و اکمل محققِ زمانہ تھے ۔ تمام علومِ مشرقی ، ادبِ عربی و فارسی ، علومِ دینی ، تفسیر و حدیث ، فقہ و اصولِ فقہ ، کلام و بلاغت و معانی وعلومِ عقائد و علومِ حکمت میں آپ ایک امامِ وقت اور مجتہدِ عصر کی حیثیت رکھتے تھے ۔ آپ کا فیضانِ علمی ہر وقت جاری رہتا تھا اور ہمیشہ درس و تدریس کے ذریعہ تحقیقاتِ علمیہ کا انکشاف ہوتا رہتا تھا ۔ آپ علوم و فنون میں درجۂ کمال رکھنے کی وجہ سے اکثر مشائخِ چشت بلکہ اپنے زمانے کے تمام کاملین میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے ۔ آپ نے علومِ حقائق اور علومِ اسرارِ باطن میں وہ موشگافیاں کی ہیں کہ آج منتہی اور صفِ اول کے علما ان کو سمجھ ہی لیں تو وہ بہت کامیاب عالم کہلائیں گے ۔ آپ کے سامنے تمام علوم صف بستہ کھڑے رہتے تھے اور جس علم و فن پر آپ اظہارِ خیال فرماتے تھے ، یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا اسی علم کے خاص ماہر ہیں ۔ علومِ حکمت اور علومِ فلسفہ میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا ۔ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی فکر و شخصیت بڑی تہہ دار تھی ۔ آپ عالم ، فاضل ، محدث ، مفسر ، فقیہ و مفتی ، صوفی ، ولیِ کامل ، صوفیِ مرتاض ، محقق ، ادیب ، مصنف ، نثر نگار اور شاعر سب کچھ تھے ۔ آپ کے علمی و ادبی آثار کا ایک نمایاں پہلو اور قابلِ ذکر حصہ آپ کے فارسی و دکنی کلام بھی ہیں ۔ اس لیے اس جہت ( شاعرانہ حیثیت ) سے گفتگو بھی ضروری معلوم ہوتی ہے ۔ ایک سو سے زائد نثری کتب کے مصنف ہونے کے علاوہ آپ فارسی کے ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے ۔ آپ کو اردو کے پہلے مصنف اور پہلے نثر نگار ہونے کے علاوہ دکن کے پہلے شاعر ہونے کا بھی شرف و اعزاز حاصل ہے ۔