ہونہار اقلیتی طلبہ کو درخشاں مستقبل کی جانب گامزن کرنے کی ایک کوشش اے ایم ای آئی کے زیر اہتمام ایس ایس سی 2025 کے ٹاپر طلبہ کے اعزاز میں شاندار تہنیتی تقریب

حیدرآباد، 16 مئی/تلنگانہ میں اقلیتی تعلیمی اداروں کی نمائندہ تنظیم، ایسوسی ایشن آف مائنارٹی ایجوکیشنل انسٹیٹیوشنس (AMEI) کے زیرِ اہتمام آج ایک پُراثر تقریب منعقد کی گئی، جس کا مقصد 2025 کے ایس ایس سی امتحانات میں شاندار کامیابی حاصل کرنے والے اقلیتی طلبہ کو تہنیت پیش کرنا، ان کی اور حوصلہ افزائی اور علمی کاوشوں کو خراجِ تحسین دینا اور ساتھ ھی ساتھ انہیں مستقبل کے تعلیمی و پیشہ ورانہ سفر کے لیے رہنمائی فراہم کرنا تھا۔
تقریب کا انعقاد حیدرآباد کے کے ایل این آڈیٹوریم، ریڈ ہلز، نامپلی میں کیا گیا، جہاں نہ صرف خانگی اسکولوں کے نمایاں طلبہ کو مدعو کیا گیا بلکہ سرکاری اسکولوں کے اُن ہونہار طلبہ کو بھی اعزازات سے نوازا گیا جنہوں نے 500 یا اس سے زائد نمبر حاصل کیے۔ تقریب میں تقریباً 100 ایس ایس سی ٹاپر طلبہ اور 80 سے زائد اسکولوں کے کرسپانڈنٹس کو تہنیت پیش کی گئی۔اس موقع پر حوصلہ افزائی کے لیے تعلیمی، سماجی، اور سیاسی میدان سے وابستہ شخصیات بھی موجود تھیں۔ جناب ماجد حسین، رکنِ اسمبلی (نامپلی) نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی، جب کہ ممتاز چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ جناب مدھو سدھن اگروال، عثمانیہ میڈیکل کالج کی دو بار گولڈ میڈیلسٹ ڈاکٹر مہروز النساء اور حال ہی میں منتخب TSPSC گروپ ون 74رینکرنسیم بانو نے مہمانانِ اعزازی اور کی حیثیت سے طلبہ سے خطاب کیا۔
صدر اے ایم ای آئی جناب انور احمد نے اس موقع پر طلبہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا:”یہ تقریب محض انعامات کی تقسیم نہیں بلکہ ان بچوں کے حوصلے کی شناسائی ہے جنہوں نے نامساعد حالات کے باوجود نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہمارا مقصد اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کے وقار کو بلند رکھنا اور ہر باصلاحیت طالبعلم کی صلاحیت کو اجاگر کرنا ہے۔”انہوں نے مزید کہا کہ AMEI مستقبل میں ایسی تقاریب کو ریاست بھر میں فروغ دے گی تاکہ ہر اقلیتی طالبعلم کو یہ پیغام دیا جائے کہ وہ اکیلا نہیں ہے ایک پوری برادری اُس کے پیچھے کھڑی ہے۔جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد ساجد علی نے طلبہ کی رہنمائی کرتے ہوئے کہا:”تعلیم صرف نمبروں کا کھیل نہیں بلکہ مستقبل کی منصوبہ بندی ہے۔ ہر طالبعلم کو چاہئے کہ وہ پانچ ممکنہ کیریئر آپشنز کا انتخاب کرے، خود کو سمجھے اور پھر ایک سچّی لگن کے ساتھ اُسی سمت آگے بڑھے۔”انہوں نے طلبہ کو یہ بھی مشورہ دیا کہ بدلتے نظامِ امتحانات، جیسے انٹرنل مارکس کی ممکنہ تنسیخ، کے پیشِ نظر وہ مضبوط بنیادوں پر اپنی تیاری جاری رکھیں۔
رکنِ اسمبلی جناب ماجد حسین نے طلبہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا:”یہ بچے ہمارے مستقبل کے معمار ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ ہمارے حلقے اور ریاست میں اقلیتی طلبہ اتنی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ ایسے ذہین طلبہ کی راہ میں آسانیاں فراہم کرے، اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو مزید تقویت دے۔”انہوں نے AMEI کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایسی تقریبات محض انعامات کا تبادلہ نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کی علامت ہوتی ہیں جو طلبہ کی زندگی بدل سکتی ہیں۔جناب مدھو سدھن اگروال (چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ) نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا:”تعلیم کے میدان میں کامیابی صرف محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ والدین، اساتذہ اور اسکولوں کے مشترکہ عزم کی جھلک ہوتی ہے۔ میں ان بچوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آئندہ تعلیم میں بھی بلندیوں کو چھونے کا ہدف رکھیں — خصوصاً کامرس، اکاؤنٹنگ، اور مالیاتی شعبوں میں بھی اقلیتوں کی شمولیت کو بڑھایا جائے۔”
انہوں نے طلبہ سے کہا کہ وہ خود کو کبھی کمزور نہ سمجھیں اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں۔ نہوں نے طلبہ کو تاکید کی کہ 10ویں جماعت کے بعد بھی وہی نظم و ضبط اور محنت جاری رکھیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ اگر کسی طالبعلم کو چارٹرڈ اکاونٹینٹ CA یاکمپنی سکرٹری CS جیسے کورسز سے متعلق رہنمائی کی ضرورت ہو، تو وہ ہمیشہ مدد کے لیے دستیاب ہیں۔محترمہ نسیم بانو، اقراءمشن اسکول کی سابق طالبہ اور تلنگانہ بپلک سروس کمیشن گروپ ون کی ٹاپرنے اپنی مختصر مگر پراثر گفتگو میں طلبہ کو مشورہ دیا:”میں بھی کبھی ایک عام طالب علم تھی۔ آج اگر میں کامیاب ہوں تو اس میں میرے اساتذہ، گھر والوں، اور ایک منظم منصوبہ بندی کا ہاتھ ہے۔ میری بہنوں اور بھائیوں! آپ بھی ہر شعبے میں آگے بڑھ سکتے ہیں اگر آپ میں سچائی، استقلال اور اعتماد ہو۔”انہوں نے طالبعلموں کو خاص طور پر سول سروسز جیسے امتحانات کے لیے ابھی سے تیاری شروع کرنے کی ترغیب دی۔
ڈاکٹر مہر النساء، ایس ایس سی اور انٹر میڈیٹ کی اسٹیٹ ٹاپر اور کے جی سے لے کر جونئر کالج تک ایم ایس کی طالبہ جنہوں نے باوقار عثمانیہ میڈیکل کالج میں دو گولڈ میڈل حاصل کئے، انہوں نے اپنے خطاب میں کہا:”میڈیکل ایک ایسا شعبہ ہے جو نہ صرف علم کا امتحان لیتا ہے بلکہ انسانیت کا بھی۔ ہمارے یہاں اقلیتی طلبہ کی تعداد میڈیکل شعبے میں اب بھی بہت کم ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آج یہاں موجود طلبہ میں سے کچھ کل کے سرجن، ڈاکٹرز اور میڈیکل محققین بن کر اُبھریں”۔ اس موقع پر انہوں نے ایم ایس ایجوکیشن اکیڈیمی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایم ایس کی سب سے بڑی خوبی یہ بتائی کہ وہاں دین و دنیا کا بہترین توازن سکھایا جاتا ہے، جو ان کی آخرت اور دنیا دونوں کے لیے مفید رہا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ اس ادارے کی شکر گزار رہیں گی۔انہوں نے طلبہ کو سادہ اور قابلِ عمل مطالعے کے طریقے اپنانے کا مشورہ دیا۔
تقریب کا ماحول نہایت پُرجوش اور پُرمسرت تھا۔ اسٹیج پر ٹاپر طلبہ کو تمغے، توصیفی اسناد، اور تحائف دیے گئے۔ والدین اور اساتذہ نے اپنے بچوں کی کامیابی پر مسرت کا اظہار کیا۔پروگرام کےکنوینر جناب محمود سہیل نے نہایت عمدگی سے AMEI کی ٹیم کےساتھ طلبہ کے ڈیٹا کو جمع کیا اور ان کے اعزاز میں اس تقریب کو یقینی بنانے کے لیے شب و روز محنت کی۔اس تقریب کی نظامت دو خواتین محترمہ نسیم النساء اور محترمہ نجمہ سلطانہ نے انجام دی موقع پر اے ایم ای آئی کے نائب صدر فاروق صاحب، وقار احمد صاحب ،عامر صاحب اور دیگر معاونین کی خدمات کو بھی سراہا گیا۔
یہ تقریب صرف ایک اعزازاتی تقریب نہیں بلکہ اقلیتی طلبہ کے لیے ایک مثبت پیغام تھا کہ محنت، خود اعتمادی اور اجتماعی تعاون سے وہ کسی بھی میدان میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔توقع ہے کہ اے ایم ای آئی کا یہ اقدام ریاست میں ان کی تعلیمی ترقی کی نئی راہیں ہموار کرے گا ۔