جنرل نیوز

اللّٰہ عازمین حج کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

اللّٰہ عازمین حج کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

حیدرآباد(پریس ریلیز )(19مئی 2025) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے عازمین حج کی تہنیتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتلایا کہ مسند امام احمد کی ایک روایت کے مطابق سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنهما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد مبارک نقل کیا ہے کہ : جب کسی حاجی سے ملو تو اس کو سلام کرو، مصافحہ کرو، اور اس سے درخواست کرو کہ وہ تمہارے لیے استغفار کرے، اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے پہلے، اس لیے کہ وہ خود گناہوں سے بخشا ہوا ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ: حاجی، اور جس کے لیے حاجی مغفرت کی دعا کرے، چالیس دن تک ربیع الاول کے پہلے دس دن تک اس کی طرف سے کی گئی مغفرت کی دعا قبول ہوتی ہے۔ مسند بزار اور مستدرک حاکم میں ابو ہریرۃ رضی اللہ کا فرمان منقول ہےکہ: یا اللہ حاجیوں کی مغفرت فرما اور جن کے لیے حاجی مغفرت کی دعا کریں، ان کی بھی مغفرت فرما۔ ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حاجی سے، جب وہ حج کر کے لوٹا ہو، دعا کروانا مستحب ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حجاج اور معتمرین (حج اور عمرہ کرنے والے) اللہ کے وفد (مہمان) ہیں، اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں تو وہ ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے، اور اگر وہ اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں تو وہ انہیں معاف کر دیتا ہے“۔حج و عمرہ کا سفر بڑی سعادت والا سفر ہے، اور حج یا عمرہ پر جانے والے کی دعائیں قبول ہونا بھی احادیث سے ثابت ہے اور حج یا عمرہ پر جانے والوں سے دعا کی درخواست کرنا بھی حدیث سے ثابت ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص حج یا عمرہ پر جاتے ہوئے اپنے عزیز و اقارب سے صلح صفائی کی غرض سے معافی مانگے تو عزیز و اقارب کو بھی چاہیے کہ اسے دل سے معاف کر کے اس سے دعاؤں کی درخواست کریں، ایسے موقع پر ناراضی  و ناچاقی  کی آگ کو مزید بھڑکانا بڑی محرومی کی بات ہے، اس طرح کے موقعوں کو تو غنیمت سمجھ کر آپس کی رنجشوں کو دور کرنا چاہیے اور دلوں کو بغض اور کینے سے صاف کرلینا چاہیے۔ کیا پتا حج یا عمرہ پر جانے والے کو  خوش اخلاقی سے رخصت کرنے کی وجہ سے حرمین میں اس کے دل سے دعا نکلے اور وہ قبول ہوجائے تو بڑے نفع کی بات ہے، اس کے بالمقابل اگر نفس اور شیطان کی بات مان کر بد اخلاقی کے ساتھ حج یا عمرہ پر جانے والے کے ساتھ پیش آئے تو کوئی فائدہ تو ہوگا نہیں،  مزید ایک نقصان یہ بھی ہوجائےگا کہ اس کی حرمین کی دعاؤں سے محروم ہوجائے گا اور قطع تعلقی کا گناہ الگ ملے گا۔تاہم حج یا عمرے پر جانے والے کو بھی چاہیے کہ وہ صرف رسم پوری کرنے کے لیے معافی نہ مانگے، ایسا نہ ہوکہ مبارک سفر پر روانگی کے وقت تو معافی مانگی جائے، لیکن واپس آکر وہی روش اختیار کی جائے،  پس اگر حاجی یا عمرہ کرنے والا سچے دل سے معافی کا خواست گار ہو ، صرف رسمی کار روائی نہ کرے تو اس کے بعد اسے اس بات کی پروا نہیں کرنی چاہیے کہ کوئی دوسرا اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اسے ذلیل و رسوا کرے گا؛ اس لیے کہ سچے دل سے معافی مانگنے والا اور اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع اختیار کرنے والا کبھی ذلیل نہیں ہوتا، اسے اللہ تعالیٰ ضرور عزت دیں گے، حدیث شریف میں ہے:

متعلقہ خبریں

Back to top button