قرأت ،حمد ،نعت،اورمنقبت کی فری تربیتی کلاسس کے افتتاحی تقریب سے مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

قرأت ،حمد ،نعت،اورمنقبت کی فری تربیتی کلاسس کے افتتاحی تقریب سے مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد 21مئی ،(پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے صدر دفتر صابر ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی خواجہ کا چھلہ مغلپورہ حیدرآباد میں منعقدہ قرأت ،حمد،نعت ومنقبت کی فری تربیتی کلاسس کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بخاری و مسلم اور ترمذی میں ہے کہ اِنَّ مِنْ الشِّعْرِ حِکْمَةٌ.،بے شک بعض اشعار حکمت ہیں۔
شاعری کی مختلف اصناف میں سے پہلی صنف جس کا یہا ں ذکر کیا جارہا ہے ’’حمد‘‘ کہلاتی ہے۔حمد ایک عربی لفظ ہے،جس کے معنی‘‘تعریف‘‘ کے ہیں۔ حمد باری تعالیٰ، کئی زبانوں میں لکھی جاتی رہی ہے۔ عربی، فارسی اور اردو زبان میں اکثر دیکھی جاسکتی ہے۔ رب کی تعریف ہر زبان میں اور ہر مذہب میں پائی جاتی ہے۔وہ نظم جس میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جائے اللہ کی صفات اس کی عظمت کا ذکر کیا گیا ہو۔یہ نظم کسی بھی ہیت میں ہو سکتی ہے۔’’زمین میں جتنے درخت ہیںاگر وہ قلم بن جائیںاورسمندر اور اس کے بعدسات سمندروں کاپانی سیاہی ہو جائے تب بھی اللہ کی باتیں (حمد و ثنا)ختم نہ ہوں گی۔‘‘سوره لقمان: 27،اللہ کی تعریف و توصیف ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے۔ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔عربی کا لفظ ’’حمد‘‘ اللہ تعالیٰ کی تحمید و تمجید کے لیے مختص ہو گیا ہے۔ جس کے لیے حمدیہ شاعری نے ایک مستقل صنف سخن کی صورت اختیار کر لی ہے۔ صرف عربی، فارسی ہی نہیں دیگر زبانوں میں بھی اس کا ذخیرہ موجود ہے۔دنیا کی ہر زبان کے شاعروں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کو پیش نظر رکھا ہے اور اسے یاد کیا ہے۔ اردو زبان میں جب سے شاعر ی کاآغاز ہوا تبھی سے حمد لکھی گئی لیکن حمد سے زیادہ توجہ نعت پر دی گئی ہے۔حمد کی دینی اور ادبی قدر و قیمت کی وجہ سے یہ صرف ہمارے مضطرب جذبات کی تسکین کا سامان، تفنن طبع، احساس جمال، انفرادی لذت کوشی، خوف خدا، بصیرت و بصارت کی توثیق یا شاعر ی برائے شاعر ی نہیں ہے بلکہ ادب میں اس کی مستقل صنفی حیثیت ہے۔ یہ صحیح ہے کہ عروض و بلاغت اور اصناف سخن کی قواعد کی کتابوں میں حمد و مناجات کی صنفی حیثیت کا ذکر نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل گو، مرثیہ گو، رباعی گو یا مثنوی و قصیدہ نگار شعرا نے حمد پر باضابطہ یا خصوصی توجہ نہیں دی بلکہ عقیدت اور بسم اللہ کے طور پر رسم پوری کرتے رہے ہیں حالانکہ حمد و مناجات کے لئے والہانہ عشقیہ جذبے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اظہار و افعال و اعمال اس سے وابستہ ہیں۔ مہارت و محاربت، متانت و سنجیدگی اور جوش ربانی کی فراوانی کے بغیر کوئی بھی شاعر حمد میں اظہار عقیدت نہیں کر سکتا۔حمد باعث تسکین قلب ہے۔ اس سے فرحت اور روحانی سکون حاصل ہوتا ہے۔ آفاقی اور ابدی حقیقتوں کی آگہی سے بھرپور اس صنف کی طرف نعت کے مقابلے میں توجہ کم دی گی ہے اور سس کا مواد بکھرا پڑا ہے۔انھوں نے مذید بتلایا کہ منقبت ”نقب نقب کے لغوی معنی ’’تلاش ‘‘کے ہیں یعنی اگر کkسی l۔ خص۔ یتمکskcm۔ کے کردار، فضائل اور خوبیوں کو تلاش ک lll بیان کیا جائے، منقبت کہلاتا ہے اور اگر سخن کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان خوبیوں کا منظوم بیان ”منقبت” کہلائے گا۔ لیکن یہ لفظ بالخصوص حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تعریف میں لکھے ہوئے اشعار کو کہا جاتا ہے۔البتہ صحابہ کرام، آئمہ اکرام اور صوفیاء کی تعریف بھی اسی زمرے میں آتی ہے ۔ مرزا غالب اور علامہ اقبال سمیت بیشتر مشہور شعراء نے منقبت لکھیں ہیں۔یہ کسی نظم کے حصے کے طور پر یا قصیدے کی شکل میں لکھی جاتی ہے۔
سید الشہدا، آلِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرزندِ علی رضی اللہ عنہ، امامِ عالی مقام، حضرت امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں عقیدت بھرا سلام کہنا، ان کی منقبت کہنا،شہادتِ حسین کی عظمتوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا، مظلومین کربلا کے غم میں مرثیہ نگاری وغیرہم صرف ایک مذہبی موضوع ہی نہیں بلکہ اپنی مقبولیت کے اعتبار سے اردو شاعری میں ایک اہم صنفِ سخن ہے۔ قدیم و جدید اردو شعراء نے بلا تفریقِ مذہب و ملت و عقیدہ، امام عالی مقام کے حضور میں نذرانۂ عقیدت پیش کیے ہیں۔
حمد و نعت کی مختصر تاریخ پر نظر دوڑا نے کے بعد شاعری کی اگلی صنف منقبت کی طرف پیش قدمی کی منقبت خاتونِ جنت سیدہ فاطمہ رضہ
مہر سپہرِ عزّ و شرافت ہے فاطمہ
شرحِ کتاب عِصمت و عِفّت ہے فاطمہ
مفتاحِ بابِ گلشن جنت ہے فاطمہ
نورِ خدا و آیہ رحمت ہے فاطمہ
رُتبے میں وہ زنانِ دو عالم کا فخر ہے
حوا کا افتخار ہے مریم کا فخر ہے
منقبت بخدمت حضرت امام حسین
منہ سے اک بار لگا لیتے جو مولا پانی
دشت غربت میں نہ یوں ٹھوکریں کھاتا پانی
کون کہتا کے کہ پانی
۔ ترستے تھے حسین
ان کے ہونٹوں کو ترستا رہا پیاسا پانی
ظرف یہ حضرت عباس کا دیکھے کوئی
نہر قدموں میں تھی اور منہ سے نہ مانگا
گرچہ بے درد نے پیاسا ہی کیا ذبح انہیں
صابروں کی مگر آنکھوں میں نہ آیا پانی
(پروفیسر فیاض احمد کاوش وارثی)
ہے۔جو کہ اردو شاعری کی ایک نہایت اہم صنف ہے جس کو کسی صورت بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
منقبت کی تاریخ
پیر نصیر الدین نصیر اپنی کتاب’’ فیض نسبت‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ
م ہے۔ جس کا تسلسل اسلام کے m ادوار سے گزرتا ہوا ہم تک پہنچا۔‘‘
حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بنفس ِ نفیس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی منقبت سماعت فرمائی۔ اس لئے اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں۔
مخمس در منقبت حضرت علی ابن ابی طالب رضہ:
علی فخرِ بنی آدم، علی سردارِ انس و جاں
علی سرور، علی صفدر، علی شیرِ صفِ میداں
علی ہادی، علی ایماں، علی لطف و علی احساں
علی حکمت، علی شافی، علی دارو، علی درماں
علی جنت، علی نعمت، علی رحمت، علی غفراں
علی واصل، علی فاصل، علی شامل، علی قابل
علی فیض و علی جود و علی بذل و علی باذل
علی نوح و علی کشتی، علی دریا، علی ساحل
علی عالم، علی عادل، علی فاضل، علی کامل
علی افضل، علی مفضل، علی لطف و علی احساں
(میر انیس)
نہ صرف حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ بلکہ آپکے کے گھرانے کے طاہر و مطہر افراد کی شان میں بھی منقبت کہی گئی ۔جس کی زندہ و جاویدمثال ذیل میں درج منقبت سے پیش کی جاسکتی ہے۔
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
ڈاکٹر یوسف قمر کی مشہورِ زمانہ منقبت ملاحظہ ہو:
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
میں غلام ابن غلام ہوں
مجھے عشق ہے تو خدا سے ہے
مجھے عشق ہے تو رسول سے
یہ کرم ہے زہرہ بتول کا
میرے منہ سے آئے مہک سدا
جو میں نام لوں تیرا جھوم کے