قرآن کی تلاوت محض الفاظ کا ورد نہیں، بلکہ روح کی غذا، دل کی روشنی، اور قلب و نظر کی جِلا ہے۔مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری:

قرآن کی تلاوت محض الفاظ کا ورد نہیں، بلکہ روح کی غذا، دل کی روشنی، اور قلب و نظر کی جِلا ہے۔مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

حیدرآباد 22مئی (پریس ریلیز) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے ،تلاوتِ قرآنِ مجید کا فیضان اور اقوالِ صحابۂ کرام سے روشنی،کے زیرعنوان فکری نشست سے اظہار خیال کرتے ہوئے بتلایا کہ قرآنِ مجید وہ الہامی کتاب ہے جو خالقِ کائنات نے اپنے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی، تاکہ انسانیت ہدایت، نور، اور نجات کی راہ پر گامزن ہو۔ اس قرآن کی تلاوت محض الفاظ کا ورد نہیں، بلکہ روح کی غذا، دل کی روشنی، اور قلب و نظر کی جِلا ہے۔
قرآنِ مجید کے فیضان کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس کی تلاوت کرتے، تو ان کے دل نرم ہو جاتے، آنکھیں اشکبار ہو جاتیں، اور دل میں خشیتِ الٰہی کی کیفیت جاگ اُٹھتی۔ ان کی زندگیوں میں قرآن محض ایک کتاب نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات تھا۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے:”اگر ہمارے دل پاک ہوتے، تو ہم قرآن سے کبھی سیر نہ ہوتے۔”یہ قول ہمیں بتاتا ہے کہ تلاوتِ قرآن صرف زبان سے نہیں، دل سے کی جاتی ہے۔ جب دل صاف ہو، تو قرآن کا نور اندر تک اترتا ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے:”قرآن خاموش ہے، مگر اس کا پیغام بولتا ہے۔
یعنی اگر دل سننے والا ہو تو قرآن ہر آیت میں نصیحت، ہر سورت میں حکمت، اور ہر حرف میں زندگی کی روشنی عطا کرتا ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قرآن کی تلاوت ایسے خشوع سے کرتے کہ سننے والوں پر رقت طاری ہو جاتی۔ ان کا کہنا تھا:”جب تم قرآن سنو تو ایسا محسوس کرو کہ اللہ تم سے مخاطب ہے۔”
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام، قرآن کو محض تلاوت کے الفاظ تک محدود نہ رکھتے تھے، بلکہ اس پر عمل کو اصل مقصد سمجھتے تھے۔ ان کی راتیں قیام میں اور دن تلاوت و خدمتِ دین میں بسر ہوتے۔قرآن کی تلاوت انسان کے باطن کو جلا بخشتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک سخت گیر طبیعت والے شخص تھے، لیکن سورۂ طٰہٰ کی آیات نے ان کے دل کو ایسا پگھلایا کہ وہ سیدھے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر گئے۔ یہ ہے تلاوتِ قرآن کا وہ فیضان جو دلوں کو بدل دیتا ہے۔چیرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے مذید بتلایا کہ آج ہمارے معاشرے کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ قرآن سے تعلق کی تجدید ہے۔ ہم نے قرآن کو صرف مردوں کی بخشش کی نذر کر دیا ہے، حالانکہ یہ زندہ دلوں کی زندگی کا سامان ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں نور پیدا ہو، ہمارے معاشرے میں امن آئے، اور ہماری زندگیوں میں سکون ہو، تو ہمیں قرآن کو تھامنا ہو گا — نہ صرف تلاوت میں، بلکہ فہم، تدبر اور عمل میں بھی۔تلاوتِ قرآن کا فیضان ہر اُس دل کو نصیب ہوتا ہے
جو عاجزی، اخلاص اور طلبِ ہدایت کے ساتھ اللہ کے کلام کی طرف رجوع کرتا ہے۔ آیئے، ہم سب اپنے دلوں کو قرآن سے روشن کریں، اپنے گھروں کو اس کی تلاوت سے معطر کریں، اور اپنی نسلوں کو قرآن سے جوڑیں۔ یہی نجات کی راہ ہے، یہی کامیابی کا راز ہے۔”اور بے شک یہ ایک عظمت والی کتاب ہے، جس کے پاس نہ آگے سے باطل آ سکتا ہے نہ پیچھے سے۔ یہ نازل کی گئی ہے حکمت والے، خوبیوں والے کی طرف سے۔”