کیا تعلیمی منصوبہ بندی اقلیتی جذبات کی نفی بن چکی ہے؟ بڑی باٹا، جمعہ کا وقفہ ور مرحلہ پر اقلیتیں نظر انداز

کریم نگر ۔ ضلع کریم نگر میں اقلیتی برادری کے تعلیمی اور مذہبی حقوق کو درپیش چیلنجز پر آج کریم نگر مسلم گریجویٹس ایسوسی ایشن اور میسا (مسلم ایمپلائز اسوسی ایشن) کی جانب سے قانون ساز کونسل کے رکن جناب عامر علی خان کو الگ الگ یادداشتیں پیش کی گئیں، جن میں سرکاری نظامِ تعلیم اور امتحانی شیڈیول کی منصوبہ بندی پر سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے۔
پہلا مسئلہ: بڈی باٹا پروگرام اور عیدالاضحیٰ کا تصادم
میسا کی یادداشت میں نشاندہی کی گئی کہ 6 تا 19 جون تک جاری رہنے والے بڈی باٹا پروگرام میں 7 جون کو بھی سرگرمیاں رکھی گئی ہیں، حالانکہ اسی روز عیدالاضحیٰ کا قوی امکان ہے۔ کیا ریاستی حکومت کیلنڈر مرتب کرتے وقت تقویمی حساسیت اور مذہبی احترام کو نظر انداز کر رہی ہے؟
ایک طرف اقلیتوں کے لیے تعلیمی سہولیات کی بات کی جاتی ہے، دوسری طرف انہی سہولیات کو مذہبی تہواروں پر فوقیت دے کر مذہبی آزادی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
دوسرا مسئلہ: TG LAWCET امتحان اور جمعہ کی نماز کا وقت
کریم نگر مسلم گریجویٹس ایسوسی ایشن نے TG LAWCET 2025 کی تاریخ پر شدید اعتراض کیا، جو کہ 6 جون، جمعہ کے دن رکھا گیا ہے۔ خاص طور پر تین سالہ ایل ایل بی کورس کی دوسری نشست (12:30 تا 2:00 بجے) جمعہ کی نماز کے وقت سے براہِ راست متصادم ہے۔ مزید برآں، اگر اسی دن عید بھی واقع ہوتی ہے، تو لاکھوں مسلم طلبہ کو امتحانی دباؤ اور عبادتی خلل کے بیچ چُناؤ کرنا ہوگا۔
تیسرا مطالبہ: جمعہ کے لیے نماز کا باضابطہ وقفہ میسا کی جانب سے پرانی روایت کا حوالہ دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ جیسے آندھرا پردیش میں 1980 اور 1983 میں جمعہ کے دن نماز کے لیے وقفہ دینے کے احکامات جاری ہوئے تھے، ویسا ہی تلنگانہ حکومت بھی ایک سرکلر کے ذریعہ تمام مسلم سرکاری ملازمین کے لیے نمازِ جمعہ کا وقت محفوظ کرے۔ کیا اقلیتیں محض تقاریر کی زینت بن کر رہ گئی ہیں؟ تعلیم، روزگار، اور عبادات – تینوں بنیادی انسانی و آئینی حقوق ہیں،
جنہیں جب ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا جائے، تو معاشرتی ہم آہنگی ٹوٹنے لگتی ہے۔ عامر علی خان صاحب نے دونوں تنظیموں کو تیقن دیا کہ وہ ان تمام نکات کو نہ صرف حکومت بلکہ متعلقہ تعلیمی اداروں اور کونسلز کے روبرو سنجیدگی سے پیش کریں گے۔