ہر دور میں حجاب کی ضرورت واہمیت واضح رہی ہے،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

ہر دور میں حجاب کی ضرورت واہمیت واضح رہی ہے،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
حیدرآباد 27مئی (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے ،حجاب کی ضرورت واہمیت ،کی فکری نشست گے دوران گفتگو بتلایا کہ ہر دور میں حجاب کی ضرورت واہمیت واضح رہی ہے جب عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حجاب کی ضرورت پڑی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ کچھ اوباش لڑکے خواتین کو گزرتے ہوئے تنگ کیا کرتے تھے، مدینہ منورہ کے صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !ہماری ازواج کو مدینہ منورہ کے اوباش لڑکے پریشان کرتے ہیں اور وہ یہودی لڑکے یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پہچان نہیں ہوتی کہ یہ یہودی خواتین ہیں یا مومنات ! تو یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ فرق اس طرح واضح فرما دیجئے کہ مومنات کی انفرادیت واضح ہو جائے اور وہ محفوظ ہو جائیں‘‘۔ جس پر قرآنی آیات نازل ہوئیں۔ پھر اس کے بعد ان آیات پر سختی سے عمل اس طرح کیا گیا کہ تمام مسلم خواتین جب بھی گھروں سے باہر نکلتی تھیں تو وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر ڈھانپے ہوئے ہوتی تھیں آج بنی نوع انسان کی تاریخ میں ایک نیا باب کھل گیا ہے۔ اقوام و مذاہب عالم کے سمندروں میں طوفان حوادث نے تباہی و بربادی مچائی ہوئی ہے۔ عمل اور انکشاف کی دنیا میں ایک ہیجان برپا ہے۔ موت و حیات کی کشمکش شروع ہوگئی ہے۔ مظالم، نا انصافیاں، دہشت گردی، خونی ہنگامہ آرائی مشرق کو مغرب میں تبدیل کرنے کیلئے پنجہ آزما ہو رہی ہیں۔
جاہلیت میں عورت کی حیثیت اسلام سے پہلے عورت کومعاشرے میں جوحیثیت دی جاتی تھی اور جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، وہ کسی سے مخفی نہیں اور نہ ہی تعریف کا محتاج ہے۔ یہ طبقہ ان طبقات میں سے تھا جو انتہائی مظلوم اور ستم رسیدہ تھا، اُن کو ظلم و ستم سے نجات دلانے کی کوئی سعی نہ کی جاتی تھی، جاہلیت کے جس دور کے لوگوں پر قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی: ’’ اوراپنی (مملوکہ) لونڈیوں کو زنا کرانے پر مجبور مت کرو (اور بالخصوص) جب وہ پاکدامن رہنا چاہیں محض اس لیے کہ دنیوی زندگی کاکچھ فائدہ (یعنی مال)تم کوحاصل ہوجائے۔‘‘ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ عورت کی حیثیت ان کی نظروں میں کیا تھی اورکیسے افعال پر اس کومجبورکیاجاتاتھا، صحیح بخاری کی ایک حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ جاہلیت کی عورتیں رہن بھی رکھی جاتی تھیں، جیساکہ محمدبن مسلمہ ۔نے فرماتے ہیں کہ جب میں کعب بن اشرف کے پاس گیا اورغلہ قرض دینے کی درخواست کی تواس نے کہا : ’’ ’’ اپنی عورتوں کو میرے پاس رہن رکھ دو، انہوں نے کہا: ہم اپنی عورتوں کو آپ کے پاس کس طرح رھن رکھ سکتے ہیں، آپ تو عرب کے حسین ترین آدمی ہیں۔‘‘ اس واقعہ سے بھی اندازہ لگائیے کہ عورت کتنی مظلوم تھی اوراس کی عصمت کس قدر پامال کی جاتی تھی۔ (۲) اسلام میں عورت کامقام ان ہی ظلم آفریں اور ظلم زدہ گھٹائوں میں جب اسلام کا آفتاب طلوع ہوا تو عورتوں کو ان کے حقوق دئیے گئے اور افراط و تفریط ختم ہوئی اور جس کا جو حق تھا وہ اس کو دیا گیا اور حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ظلم سے نکالنے کی خصوصی جدوجہد فرمائی۔ حجۃ الوداع کے موقع پرجب آپ a نے آخری خطاب فرمایا، اس وقت بھی اس طرف خاص توجہ دلائی، بلکہ اخیر وقت تک اس سلسلے میں فکرمند رہے۔ اس لیے یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے سماج میں عورت کو عزت و احترام کا مقام دیا، اس کو خاندان کی ملکہ بنایا، اس کی مستقل شخصیت کو تسلیم کیا اور انسانی حقوق میں مرد کے برابر درجہ دیا (۳) اور پہلا قرآنی مشورہ نسوانی حقوق کے سلسلے میں جس کا اعلان کیا گیا، وہ یہ تھا: ’’ ’’اے لوگو!اپنے پروردگارسے ڈرو جس نے تم کوایک جاندار سے پیداکیا اوراس جاندار سے اس کاجوڑپیداکیا اوران دونوںسے بہت سے مرد اورعورتیں پھیلائیں۔‘‘ اسلام میںعفت کاتصور اللہ پاک کے احسانات میںسے ایک عظیم احسان یہ ہے کہ شہوت کے استعمال کاجائزطریقہ نکاح بتایا، تاکہ اس کے ذریعہ شہوت کی آگ کو ٹھنڈا کیا جاسکے اور اس کے شعلوں کو بجھایا جاسکے اور ہر قسم کے نامناسب اور گناہ کے کاموں سے بچا جاسکے، بلاشبہ نکاح سے ہی انسان شہوت کو جائز طریقے سے پورا کرسکتا ہے اور عفت جیسی صفت سے متصف ہوسکتا ہے۔ اسی عفت کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے ان الفاظ کو قرآن میں محفوظ کردیا جن الفاظ سے حضور a عورتوں سے بیعت لیتے تھے کہ وہ بدکاری نہ کریں گی، چنانچہ فرمایا: ’’ ’’ اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنے بچوں کو قتل کریں گی اور نہ بہتان (کی اولاد) لاویںگی۔‘‘ اسی طرح حضور اکرم a نے بھی احادیث طیبہ میں عفت و عصمت سے متعلق اسلام کے نقطہ نظر کو بیان فرمایا اور بدکاری کے نقصانات سے امت کو آگاہ فرمایا اورکثرتِ اموات کا سبب زنا کو بتایا، چنانچہ ایک لمبی حدیث میں منجملہ اور باتوں کے یہ بھی فرمایا: ’’ولا فشا الزنا فی قوم قط إلا کثر فیہم الموت۔‘‘(۴) ’’کسی قوم میں زنا کے عام ہونے کی وجہ سے موت کی کثرت ہوجاتی ہے۔‘‘ اسی طرح فاحشہ کے پھیلنے کو طاعون اور مختلف بیماریوں کا باعث بتلایا، چنانچہ سنن ابن ماجہ میں ہے: ’’لم تظہر الفاحشۃ فی قوم قط حتی یعلنوا بھا إلا فشا فیہم الطاعون والأوجاع التی لم تکن مضت فی أسلافہم الذین مضوا۔‘‘ (۵) ’’جس قوم میں زناکاری پھیل جاتی ہے اور بلاروک ٹوک ہونے لگتی ہے تواللہ تعالیٰ ان لوگوں کو طاعون کی مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے اور ایسے دکھ درد میں مبتلا کردیتا ہے جس سے ان کے اسلاف ناآشنا تھے۔‘‘ اسی بدکاری کو روکنے کے لیے شریعتِ مطہرہ نے حدود بھی مقرر فرمادیں اور ساتھ میں بدکاری کرنے والے کے بارے میں شفقت و مہربانی نہ کرنے کی بھی تلقین فرمادی، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’وَلَاتَأْخُذْکُمْ بِھِمَا رَأْفَۃٌ فِیْ دِ یْنِ اللّٰہِ۔‘‘ (النور:۲) ’’اورتم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہیے۔‘‘ قرآن پاک نے انسانیت کو پاکدامنی کا راستہ بھی دکھادیا اور اپنے دل کو پاکیزہ رکھنے کا طریقہ بھی بیان فرمایاکہ اگر تم ازواج مطہراتu سے کوئی چیز طلب کرو تو پس پردہ رہ کر کرو، چنانچہ فرمایا : ’’’ اورجب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہرسے مانگا کرو، یہ بات (ہمیشہ کے لیے) تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے۔‘‘ (بیان القرآن) اگرچہ یہ آیت ازواج مطہراتu کے حق میں نازل ہوئی، لیکن علت کے عموم سے پتا چلتا ہے کہ یہ طریقہ ہی رہتی انسانیت کے لیے ذریعۂ نجات ہے اور نفسانی وسوسوں اور خطروں سے حفاظت کا ذریعہ حجاب ہی ہے اور بے پردگی قلب کی نجاست اور گندگی کا ذریعہ ہے۔‘‘(۶) اسی طرح امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں نکاح کے فوائد بیان کرتے ہوئے شیطان سے حفاظت اورپاکدامنی کوہی سرفہرست گنوایا، چنانچہ فرمایا: ’’نکاح کے فوائد میں سے) شیطان سے بچائو، شہوت کا توڑ اور اس کے خطرے کا دور ہونا اور نظروں کا پست ہونا اور شرمگاہ کی حفاظت ہے۔‘‘ گویا عفت کا نظام برقرار رکھنے کے لیے نکاح مشروع کیا گیا۔ پردہ کی اہمیت عورتوں کے پردے کا بیان سات آیات میں آیا ہے اور ستر سے زیادہ احادیث میں قولاً وعملاً پردے کے احکام بتائے گئے ہیں، اتنی کثرت سے پردہ کے بارے میں احادیث کا وارد ہونا اس کی اہمیت پر بین دلیل ہے، پھر صحابیاتؓ کے نزدیک پردے کی اس قدر اہمیت تھی کہ کسی موقع پر بے پردہ رہنا گوارا نہ کرتی تھیں، جیسے ایک صحابیہؓ کا واقعہ آتا ہے کہ راستہ سے جارہی تھیں، پردے کے حکم کی خبرسنی تو وہیں ایک کنارے بیٹھ گئیں اور چادر منگوائی، پھر چادر اوڑھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئیں۔ اسی طرح ایک دفعہ ابوطلحہ حضور کے ساتھ کہیں جارہے تھے، آپ کے ساتھ اونٹنی پر حضرت صفیہ t بھی تھیں، اچانک اونٹنی کا پائوں پھسل گیا اور آپ دونوں زمین پر گرپڑے، ابوطلحہ نے آپ سے آکر پوچھا: ’’چوٹ تو نہیں لگی؟‘‘ فرمایا: ’’نہیں! تم پہلے صفیہ کو دیکھو۔‘‘ یہ سن کر ابوطلحہ نے پہلے تو اپنے چہرے پر کپڑا ڈالا، پھر حضرت صفیہ t کے پاس پہنچے اور قریب پہنچ کر ان کے اوپر کپڑا ڈال کر ان کو چھپاکر پوچھا، اس کے بعد وہ کھڑی ہوئیں اور پھر ان کو سوار کیا۔ (۸) اس حدیث سے پردہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پردہ اتنا ضروری ہے کہ ایسی حالت میں بھی حضرت ابوطلحہ نے پردہ کا اہتمام فرمایا۔ (۹) سنن ابی دائود کی ایک روایت میں آپ a نے عورتوں کوایک کنارے میں چلنے کا حکم صادر فرمایا اور ایک مرد کو دو عورتوں کے درمیان چلنے سے بھی منع فرمایا، معلوم ہو اکہ پردہ شریعت میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ (۱۰) پردہ کاحکم پردے سے متعلق قرآن وحدیث میں تفصیل سے احکام بیان فرمائے گئے ہیں، چنانچہ پردہ سے متعلق سب سے پہلی آیت۵ھ میں نازل ہوئی، جس میں غیرمحرم عورت کی طرف بری نیت سے دیکھنا تحریماًاور بغیرکسی نیت کے دیکھنا کراھۃً داخل ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ ’’آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔‘‘ اور احادیث میں بھی اس موضوع سے متعلق تفصیلی احکام موجود ہیں کہ اگر بلاارادہ اچانک کسی غیر محرم پر نظر پڑجائے تو اپنی نظر کو پھیرنے کا حکم دیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ پہلی نظر جو بلاارادہ اچانک پڑجائے وہ تو غیر اختیاری ہونے کے سبب معاف ہے، ورنہ بالقصدپہلی نظر بھی معاف نہیں۔ علماء لکھتے ہیں کہ: ’’ عورت کا تمام بدن ستر ہے، اپنے گھر میں بھی اس کو مستور اور پوشیدہ رکھنا فرض اور لازم ہے، مگر چہرہ اور دونوں ہاتھ کہ ہر وقت ان کو چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے، اس لیے یہ اعضاء ستر سے خارج ہیں، اپنے گھر میں ان اعضاء کا کھلا رکھنا جائز ہے اور فرمایا کہ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت کو اپنے چہرہ کے حسن وجمال کو نامحرم مردوں کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے کہ وہ عورتوں کے حسن وجمال کا نظارہ کیا کریں۔(۱۱) ’’وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ‘‘ کے تحت فرمایا کہ عورت کو اپنی یہ زینتِ ظاہرہ (چہرہ اوردونوں ہاتھ ) صرف محارم کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے، نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں، عورتوں کو اس بات کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں کہ وہ سربازار چہرہ کھول کر اپنا حسن وجمال دکھلاتی پھریں، حسن وجمال کا تمام دارومدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرے پر ہی ختم ہے، اس لیے شریعتِ مطہرہ نے زنا کا دروازہ بند کرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قراردیا۔‘‘ (۱۲) اسی طرح احکام القرآن کے حوالہ سے فتاویٰ رحیمیہ میں نقل کیا گیا ہے کہ حدیث میںہے کہ جوعورت عطر اور خوشبو لگاکر نکلتی ہے وہ زانیہ ہے۔ پردہ کے درجات ۱- شرعی حجابِ اشخاص یعنی عورتیں اپنے گھروں میں ہی رہیں، اس کی دلیل یہ ہے: ’’ ’’اورتم اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔‘‘ ۲-ضرورت کے تحت جب عورت کو گھر سے باہر جانا پڑے تواس وقت کسی برقع یالمبی چادر کو سر سے پیر تک اوڑھ کر نکلے جس کاحکم’’یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ‘‘ (الاحزاب:۵۹) ۔۔۔۔۔ -’’ سر سے نیچے کرلیا کریں اپنی ٹھوڑی سے اپنی چادریں۔‘‘ – میں دیا گیا ہے، مطلب یہ کہ سر سے پائوں تک عورت اس میں لپٹی ہو اور چہرہ اور ناک بھی اس میں مستور ہو، صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لیے کھلی ہو۔ ۳-پورا جسم تو مستور ہو، مگر چہرہ ہتھیلیاں کھلی ہوں، أئمہ اربعہ میں سے امام شافعیؒ ،امام مالکؒ، اما م احمد wنے تو چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاًاجازت نہیں دی، خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو، البتہ امام اعظم v نے فرمایا کہ اگرفتنہ کاخوف ہو تو کھولنا منع ہے، لیکن اس زمانہ میں خوفِ فتنہ نہ ہونے کا احتمال شاذ و نادر ہے اور نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے، اس لیے متأخرین فقہاء احناف نے بھی وہی فتویٰ دے دیا جو أئمہ ثلاثہ نے دیا تھا کہ جوان عورت کے چہرہ یا ہتھیلیوں کا کھولنا ناجائز اور پردہ کرنا ضروری ہے ۔(۱۳) پردہ فطری ضرورت فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ جو چیز قیمتی ہوتی ہے، اس کو خفیہ اور پوشیدہ جگہ رکھا جاتا ہے کہ جس طرح پیسہ قیمتی چیز ہے تو انسان اس کو چھپا کر رکھتا ہے، اسی طرح عورت بھی قیمتی ہونے کے باعث اسی بات کی حقدار ہے کہ اس کو پردے میں رکھا جائے، چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب v نے اپنے ملفوظات میں پردہ کی فطری ضرورت کو اسی انداز میں سمجھایا کہ ریل میںانسان اپنے پیسوں کو ظاہر نہیں کرتا، بلکہ اندر کی بھی اندر والی جیب میں رکھتا ہے، اسی طرح عورت کو بھی پردہ میںرکھنا چاہیے، اور غیرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عورت پردہ میں رہے۔(۱۴) ایمان کے بعد جو سب سے پہلا فرض ہے وہ سترِ عورت ہے، تمام انبیاء o کی شریعتوں میں فرض رہا ہے، بلکہ شرائع کے وجود سے پہلے جب جنت میں شجر ممنوعہ کھالینے کے سبب حضرت آدم m کا جنتی لباس اترگیا تو وہاں بھی انہوں نے ستر کھلا رکھنے کو جائز نہیں سمجھا، اس لیے آدم وحواء دونوں نے جنت کے پتے اپنے ستر پر باندھ لیے، جس کو قرآن نے یوں تعبیر فرمایا: ’’ ’’دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ رکھتے گئے۔‘‘ حضرت شعیب کی بیٹیوں کے واقعہ سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ اتنی بات تو صلحاء وشرفاء میں ہمیشہ رہی ہے کہ اجنبی مردوں کے ساتھ عورتوں کااختلاط نہ ہوکہ جب وہ دو لڑکیاں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے گئیں تو ہجوم کی وجہ سے ایک طرف الگ کھڑی ہوگئیں اور پوچھنے پر وجہ یہی بتائی کہ مردوں کا ہجوم ہے، ہم اپنے جانوروں کو پانی اسی وقت پلائیں گے جب یہ لوگ فارغ ہوکر چلے جائیں گے۔ بے پردہ رہنے کے نقصانات شریعتِ مطہرہ نے خواتین کو باپردہ رہنے کا حکم دیا اور باپردہ زندگی گزارنے سے ہی معاشرہ میں امن و سکون باقی رہتا ہے اور اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بے پردگی سے جتنے مفاسد اور برائیاں معاشرہ میں جنم لیتی ہیں ان کو شمار میں لانا مشکل ہے۔ عورتوں کا بے پردہ رہنا ہی مردوں کی بدنظری کا باعث بنتاہے، جس سے گناہوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، چنانچہ حضرت عیسیٰ نے بھی بدنظری کو مہلک بیماری اور فتنہ بتایا: ’’اجنبی عورتوں کو) تاک جھانک کرنے سے اپنے کو بچائو، اس سے دلوں میں شہوت کا بیج پیدا ہوتا ہے اور فتنہ پیدا ہونے کے لیے یہی کافی ہے۔‘‘ اسی طرح حضرت داؤدm نے بھی اپنے بیٹے کو نصیحت فرماتے ہوئے عورتوں سے دور رہنے کی تلقین فرمائی: ’’ ’’فرمایا: اے بیٹا! شیر اور سانپ کے پیچھے چلے جانا، مگر (اجنبی) عورت کے پیچھے نہ جانا۔‘‘ یحییٰmنے بھی بدنظری اور حرص ولالچ کو زنا کا باعث بتایا: ’’قیل لیحیٰی: مابدء الزنا؟ قال: النظروالتمنی۔‘‘(۱۶) ’’حضرت یحییٰm سے کسی نے پوچھا کہ زنا کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ آپm نے فرمایا: نامحرم کو دیکھنے اور حرص کرنے سے۔‘‘ بعض صحابہؓ سے روایت ہے کہ آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا غیر محرم کو دیکھنا ہے اور زنا میں چھ خصلتیں ہیں، تین دنیا میں اور تین کا تعلق آخرت سے ہے۔ دنیا میں تو یہ ہیں : ۱-رزق میں کمی وبے برکتی۔ ۲-نیکی کی توفیق سے محرومی۔ ۳-لوگوںکے دلوں میں اس سے نفرت ۔ اور آخرت کی تین یہ ہیں: ۱-اللہ کاغضب۔ ۲-عذاب کی سختی ۔ ۳-دوزخ میں داخلہ۔(۱۷) اس دور میں نکاح کرنا مشکل اور گناہ میں پڑنا آسان ہوگیا ہے، جب کہ صحابہؓ وسلفؒ کے دور میں عفیف رہنا آسان تھا، کیونکہ ان کا نکاح کرنا آسان تھا، اس وقت ہمیں بے پردگی نے اس قدر جکڑلیا ہے کہ ہر وقت بازاروں میں بدنظری کا گناہ جاری ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ قرآن وسنت کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور عفت کے تحفظ کے لیے قرآن وسنت کی ہدایات کو مشعلِ راہ بنایا جائے اور ہمہ وقت اللہ پاک سے پاکدامنی کی دعا کی جائے: ’’أللّٰہم إنی أسئلک الہدٰی والتُّقٰی والعفافَ والغِنٰی۔‘‘(۱۸)