قربانی کرنے والے شخص کے لیے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کا جانور ذبح ہونے تک ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹنا مستحب ہے،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

قربانی کرنے والے شخص کے لیے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کا جانور ذبح ہونے تک ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹنا مستحب ہے،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد 28مئی (پریس ریلیز ) لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے صدر نشین مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے کہا ہے کہ اسلامی سال کا بارہواں اور آخری مہینہ ذی الحجہ شروع ہو رہا ہے۔ اس عظیم مہینے میں لوگ حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ قرآن حکیم نے چارمہینوں کو حرمت والا قرار دیا ہے۔ ان چار مہینوں میں سے سب سے آخری مہینہ ذی الحجہ کا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ذی الحجہ حرمت والا مہینہ ہے۔ ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی بڑی فضیلت ہے۔ ا س مقدس ماہ کی 10 ویں تاریخ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو قربانی اللہ کی بارگاہ میں پیش کی تاریخ عالم اسکی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس مہینے کی 8 ویں تاریخ کو یوم ترویہ اور 10 ویں تاریخ کو یوم نحر کہتے ہیں۔
8 ذی الحجہ کو یوم ترویہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس دن حجاج کرام اپنے اونٹوں کو پانی سے سیراب کرتے ہیں تاکہ عرفہ کے روز انکو پیاس نہ لگے اور 10 تاریخ کو مسلمان سنت ابراہیمی کو زندہ کرنے کیلئے قربانیاں کرتے ہیں۔احکام ومسائل قربانی سے متعلق شرعی رہنمائی کرتے ہوئے بتلایا کہ قربانی کرنے والے شخص کے لیے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کا جانور ذبح ہونے تک ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹنا مستحب ہے، اس کی حکمت اور وجہ یہ ہے کہ بعض علماء نے اس کی حکمت یہ ذکر کی ہے کہ اس کی ممانعت حجاجِ بیت اللہ سے مشابہت کے لیے ہے کہ ان کے لیے حج کے ایام میں بال اور ناخن وغیرہ کاٹنا منع ہوتا ہے،
لہٰذا جو لوگ حج پر نہ جاسکے اور قربانی کررہے ہوں تو وہ بھی حجاج کرام کی کچھ مشابہت اختیار کرلیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس رحمت کا کچھ حصہ انہیں بھی عطا فرمادیں گے جو حجاج بیت اللہ پر نازل ہوتی ہیں۔ اور انہی کے ضمن میں قربانی نہ کرنے والے بھی مشابہت اختیار کرلیں تو وہ بھی رحمت کے حق دار بن جائیں۔یہ توجیہ ہمارے بعض اکابر علماء سے منقول ہے، خصوصاً جو بیت اللہ اور شعائرِ حج کا عاشقانہ ذوق رکھتے ہیں، اور یہ توجیہ اپنی جگہ درست بھی ہے۔ لیکن محققین علماء کرام اور شراح حدیث نے اس توجیہ پر کلام کیاہے،
اس لیے کہ اگر مقصود حجاج کی مشابہت ہو تو حجاج کرام کے لیے تو سلا ہوا لباس اور خوشبو کا استعمال وغیرہ بھی ممنوع ہے، اگر مشابہت مقصود ہوتی تو تمام احکام میں ہوتی۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ مشابہت کے لیے تمام امور میں مشابہت ضروری نہیں ہوتی، رحمتِ خداوندی متوجہ کرنے کے لیے ادنیٰ مناسبت بھی کافی ہے۔ لیکن اس پر پھر سوال ہوتا ہے کہ اگر بعض امور میں ہی مشابہت کافی تھی تو بھی بال، ناخن اور جسم کی کھال وغیرہ کاٹنے کی ممانعت میں ہی کیوں مشابہت اختیار کی گئی؟ احرام کی چادروں اور خوشبو کی پابندی میں بھی مشابہت ہوسکتی تھی! اس لیے مذکورہ حکم کی ایک اور حکمت بیان کی گئی ہے، جو تحقیق کے زیادہ قریب اور راجح ہے،
اس حکمت کو سمجھنے سے پہلے قربانی کی حقیقت اور فلسفہ سمجھنا ضروری ہے۔
درحقیقت قربانی تو جان کی قربانی ہی تھی، جیساکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتاہے، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایاہے کہ اصل قربانی تو جان نثاری اور جان سپاری کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے یہ قربانی جان سے ٹال کر مال کی طرف منتقل کی۔ پھر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مالی قربانی صدقے کی صورت میں مقرر کردی جاتی، لیکن اس طرح انسان کو اپنی جانی قربانی کی طرف توجہ اور اس کا استحضار نہ ہوتا۔ اس غرض کے لیے ایسی مالی قربانی مقرر کی گئی جس میں جانور قربان کیا جائے، تاکہ مالی قربانی میں بھی جانی قربانی کی مشابہت موجود ہو، اور معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی بوقتِ قربانی یہ سوچے کہ اس بے زبان جاندار کو میں کس لیے قربانی کررہاہوں؟
اس کا خون کیوں بہا رہاہوں؟ جب یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوگا تو اسے استحضار ہوگا کہ درحقیقت یہ میرے نفس اور میری جان کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے میرے مال کی صورت قبول کرلیا، یوں اسے مقصدِ اصلی بھی یاد رہے گا اور نفس کی قربانی کے لیے یہ محرک بھی ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھے گا۔
اب جب کہ قربانی کا مقصد معلوم اور مستحضر ہوگا تو گویا قربانی کرنے والے نے اپنے آپ کو گناہوں کی وجہ سے عذاب کا مستحق سمجھا کہ میں اس قابل ہوں کہ ہلاک ہوجاؤں اور میری جان خدا کے لیے قربان ہوجائے، لیکن شریعت نے جان کے فدیہ میں جانور کی قربانی مقرر کردی، سو یہ جانور انسان کی نیابت میں قربان ہورہاہے، تو قربانی کے جانور کا ہر جزو قربانی کرنے والے کے جسم کے ہر جز کا بدلہ ہے ۔ لہٰذا جس وقت جانور قربانی کے لیے خریدا جائے یا قربانی کے لیے خاص کیا جائے اس وقت انسانی جسم جس حالت میں ہو، مختص کردہ جانور اس انسانی جسم کے قائم مقام ہوجائے گا
، اور جانور قربانی کے لیے خاص کرنے کے بعد جسم کا کوئی جز (نال، ناخن، کھال وغیرہ) کاٹ کر کم کردیا گیا تو گویا مکمل انسانی جسم کے مقابلے میں جانور کی قربانی نہیں ہوگی، جب کہ جانور انسانی جان کا فدیہ قرار پاچکاتھا۔ لہٰذا مناسب معلوم ہواکہ قربانی اور نزولِ رحمت کے وقت انسانی جسم کا کوئی عضو و جزو کم ہو کر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فیضان الٰہی کی برکات سے محروم نہ رہے،تاکہ اس کو مکمل فضیلت حاصل ہو اور وہ مکمل طور پر گناہوں سے پاک ہو ، اس لیے آں حضرتﷺنے مذکور حکم دیا ہے ۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نےارشاد فرمایا : ’’جب ذوالحجہ کاپہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی دینے کا ارادہ ہو تو وہ بال، ناخن یا کھال کا کچھ حصہ نہ کاٹے ، جب تک قر بانی نہ دے دے. ‘‘ ایک روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ ذو الحجہ کا چاند طلوع ہوتے ہی ان چیزوں سے رک جائے۔
اس حدیث کی روشنی میں فقہاءِ کرام نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے اس کے لیے مستحب ہے کہ ماہِ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ کرے جسم کے کسی عضو سے بال اور ناخن صاف نہ کرے ، نیز بلاضرورت کھال وغیرہ بھی نہ کاٹے، اور یہ استحباب صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو۔
البتہ بعض اکابر فرماتے ہیں کہ قربانی نہ کرنے والے بھی قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کرکے عام لوگوں کی قربانی کے بعد ناخن اور بال وغیرہ کاٹیں تو اللہ سے امید ہے کہ وہ بھی ثواب سے محرو م نہیں ہوں گے۔ نیز اس میں یہ ملحوظ رہے کہ اگر زیر ناف بال اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہورہے ہوں تو ایسی صورت میں ان کی صفائی کرنا ضروری ہے۔
اس کے لیے قریب ترین کسی زمانے کی تعیین کی ضرورت تھی، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ ہر شخص جب اپنا جانور خریدے یا قربانی کے لیے خاص کرے اسی وقت سے اسے ناخن یا بال کاٹنا منع ہو۔ لیکن دینِ اسلام نے زندگی کے ہرمعاملے میں نظم وضبط اور نظام پر زور دیاہے، دین کی عبادات سے لے کر انفرادی اور اجتماعی احکام کو دیکھ لیاجائے، غور کرنے پر ہر حکم میں نظم واضح نظر آئے گا۔ لہٰذا نظام کا تقاضا تھا کہ قربانی کرنے والے تمام مسلمانوں کے لیے ایک وقت مقرر کرکے نظم قائم کردیا جائے ، اس کے لیے ایک قریب ترین مدت مقرر کی گئی۔
پھر یہ بھی ہوسکتاتھا کہ عیدالاضحی سے ایک آدھ دن پہلے وقت مقرر کردیاجاتا، لیکن اس کے لیے ذی الحجہ کا چاند مقرر کیا گیا، اس لیے کہ قربانی کی عبادت کا تعلق عید الاضحٰی اور حج کی عبادت سے ہے، جیساکہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد عیدالفطر ہے، اور اسلام نے شرعی احکام کو اوقات کے ساتھ جوڑا ہے، اور ان کا مدار قمری مہینے اور تاریخ پر رکھاہے، چناں چہ رمضان المبارک چاند دیکھ کر شروع اور چاند دیکھ کر ختم ہوتاہے، ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی حج کی تیاری تقریباً اختتام کو پہنچتی ہے، اور ذی الحجہ کے چاند سے عیدالاضحیٰ کا دن اور صحیح وقت متعین ہوتاہے، لہٰذا قربانی کی تعیین میں بھی ذی الحجہ کے چاند کو دخل ہوا۔ نیزضمنی طور پر اس بات کی ترغیب بھی دے دی گئی کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قربانی کا جانور کچھ ایام پہلے لے کر پالیں، تاکہ ان سے انسیت قائم ہونے کے بعد قربانی کرنے سے نفس کی قربانی اور جان نثاری کے جذبات مزید ترقی پائیں۔ اسی طرح جانور جلدی لے کر، اس کی خدمت کرنے، اور بال، ناخن وغیرہ نہ کاٹنے سے جو میل کچیل کی کیفیت ہوگی تو اس سے انسان کو اپنی حقیقت کی طرف بھی دھیان ہو اور تواضع وعاجزی کی ترقی بھی بنے۔ جنرل سکریٹری لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن محترمہ ڈاکٹر عاصم ریشماں نے کہا کہ حج کا رکن اعظم یوم عرفہ بھی انہی ایام میں ہے
۔ یہ دن بڑے شرف اور فضیلت کا حامل ہے کیونکہ یہ گناہوں سے بخشش کا دن ہے۔ ذی الحجہ عرفہ دن اللہ تعالیٰ فرشتوں کا حکم دیتاہے کہ جاؤ دیکھو میرے بندے بکھرے بال، غبار آلود چہرے، مال خرچ کر کے مشقت برداشت کر کے حاضر ہوئے ہیں، تم گواہ رہو میں نے ان کو بخش دیا۔ انہوں نے کہا کہ قربانی سے بندہ قرب الٰہی حاصل کرتا ہے۔ جونہی قربانی کے جانور کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے وہ بندے کے ہر گناہ کا کفارہ ہو جاتا ہے
۔ اجتماع کے اختتام پر خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے رقت آمیز دعا کی۔ انہوں نے ملک میں امن اور سلامتی کی دعا کی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس مقدس عشرے کے صدقے ہمارے گناہ معاف فرما دے اور ہمارے ملک کو سلامت رکھے۔