جنرل نیوز

قربانی کی قبولیت حسنِ نیت اور صدق و اخلاص پرہے،جلسہ یاد حضرت سیدنا ابراہیم صہ و حضرت سیدنا اسماعیل صہ،سے مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

قربانی کی قبولیت حسنِ نیت اور صدق و اخلاص پرہے،جلسہ یاد حضرت سیدنا ابراہیم صہ و حضرت سیدنا اسماعیل صہ،سے مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

حیدرآباد 29مئی (پریس ریلیز ) ابنائے اسلام کی دینی اقامتی دانشگاہ کلیتہ البین جامعۃ المؤمنات مغلپورہ حیدرآباد میں منعقدہ جلسہ یاد حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام و حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام سے خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری خطاب کرتے ہوئے بتلایا کہ قربانی کی قبولیت میں جو چیز کار فرما ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حسنِ نیت اور صدق و اخلاص ہے۔ عمل اگر صدق و اخلاص کی بنا پر ہو تو وہ اگرچہ قلیل تر ہی کیوں نہ ہو، انسان کا درجہ بلند تر کر دیتا ہے۔ وہی عمل اگر صدق و اخلاص، نیک نیتی اور للّٰہیت سے خالی ہو تو خواہ وہ عمل پہاڑ کے برابر ہی کیوں نہ ہو، اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر ایک مسلمان دکھاوے کی نیت سے بہت بڑے اور کثرت سے جانورخریدے تاکہ لوگ متاثر ہوں تو اس سے لوگوں کی نظروں میں بہت بڑا ہونا تو دکھایا جاسکتا ہے لیکن اﷲ تعالیٰ کے ہاں ایسا شخص بڑا نہیں ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں پچھلی صف پر بیٹھا ہوا وہ آدمی بڑا ہو جس میں قربانی کرنے کی سکت بھی نہ ہو لیکن اس کا دل چاہ رہا ہو کہ میرے پاس دولت ہوتی تو میں اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے قربانی کرتا۔ قربانی کی استطاعت نہ رکھنے کے باوجود لیکن حسنِ نیت کی وجہ سے اس کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وہ اجر مل جاتا ہے جو ریا کاری کی قربانی کرنے والے کو کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ٍ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے والد گرامی شاہ عبد الرحیم رحمۃ اﷲ علیہ ہمیشہ صدقہ و خیرات کرتے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف کے دن کثرت سے صدقہ کرتے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک سال ایسا آیا کہ میرے والد ماجد کے پاس اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی میں صدقہ کر سکتے۔ بالآخر مجبور ہو کر انہوں نے تھوڑے سے چنے لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں تقسیم کر دیئے لیکن دل میں بوجھ رہا کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی ولادت کے موقع پر یہ ادنیٰ سا صدقہ ہے۔ خدا جانے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں قبول ہوا ہوگا یا نہیں؟ بس اتنا عمل کرنے کی دیر تھی کہ اسی رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ان کے صدقہ کئے ہوئے چنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرما رہے ہیں: بیٹا عبد الرحیم! ہم تھوڑے یا زیادہ کی طرف نہیں جاتے، ہم تو حسنِ نیت کو دیکھا کرتے ہیں اور بس! جس نیت سے تو نے خوشی کی، یہی حسنِ نیت اور تقویٰ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت پاگیا ہے۔ قربانی کا قبول ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ قربانی کس نیت سے دی جا رہی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اور جو شخص اﷲ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات،احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اﷲ یا اﷲ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہو گیا ہو)۔‘‘(الحج، 22: 32)اس ارشاد ربانی میں تقویٰ کو دل کی کیفیت قرار دیا گیا ہے۔ قربانی کے جانور اللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے ذبح کیے جاتے ہیں۔ ان کی نسبت چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہو جاتی ہے اس لئے یہ شعائر اللہ میں سے ہو جاتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لیے اﷲ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے۔‘‘(الحج، 22: 36)قرآن و سنت کے تمام احکام کو سامنے رکھ کر انسان اس نتیجے پر آسانی سے پہنچ جاتا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں جس شے کی قدرو منزلت ہے وہ اس کی ظاہری صورت نہیں بلکہ اس میں پنہاں حسنِ نیت اور دلوں کا تقویٰ ہے۔ قربانی کرنے والے اخلاصِ نیت اور تقویٰ کے باعث اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں لیکن اگر قربانی سے تقویٰ ہی نصیب نہ ہو تو پھر قربانی کرنا محض ایک رسم رہ جاتی ہے۔چیرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے مذید بتلایا کہ

ذبح اسماعیل علیہ السلام کا واقعہ انسانی تاریخ کا ایسا بے مثال اور شاندار باب ہے جس کا تذکرہ قرآن حکیم میں بڑے اہتمام سے کیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ہوا کہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ہمارے لئے قربان کردیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے فرمایا:’’اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘(الصافات، 37: 102)

اﷲ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو فیضانِ نبوت کے طفیل فہم و شعور کی بلند سطح عطا کر رکھی تھی۔ آپ علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے ذبح نہ کریں بلکہ آپ علیہ السلام نے جو جواب دیا وہ بھی پیغمبرانہ بصیرت کا حامل تھا۔ قرآن حکیم نے آپ علیہ السلام کے اس جواب کو بھی ابدی شان عطا فرماتے ہوئے اپنے دامن میں جگہ دی۔ عرض کرنے لگے:

’’ابّاجان! وہ کام (فوراً) کرڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے۔‘‘(الصافات، 37: 102)

آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ابا جان آپ نے تو خواب دیکھا ہے، خواب کی تعبیر کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ آپ اگرچہ بچے تھے لیکن اتنا جانتے تھے کہ نبی کا خواب عام خواب نہیں ہوتا بلکہ وحی ہوتی ہے۔ ثانیًا یہ جواب اس خیال سے بھی دیا کہ ایسا نہ ہو کہ انسانی اور بشری تقاضوں کی بناء پر شفقتِ پدری غالب آئے اور بیٹے کی گردن پر چھری چلتے چلتے ہاتھ لرز جائیں، اس لئے بحیثیت بیٹا عرض کیا:’’اگر اﷲ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘(الصافات، 37: 102)اس موقع پر مولانا مفتی عبدالرحیم قادری مولانا غلام ربانی عطاری کے علاوہ دیگر اساتذہ کرام بھی موجود تھیں

متعلقہ خبریں

Back to top button