صفحہ ہستی سے مٹادی گئی غزہ کی "خزاعہ” بستی کا نوحہ

File photo
نئی دہلی۔ غزہ کے جنوب مشرق میں واقع "خزاعہ” وہ پرسکون فلسطینی قصبہ ہے جہاں کبھی کھیت لہلہاتے تھےاور راتیں چراغوں سے جگمگاتی تھیں۔ آج وہی خزاعہ ایک بےجان خاک کا ڈھیر ہے، جس پر صہیونی درندگی نے ایسا وار کیا ہے کہ اسے نیست ونابود کر دیا گیا ہے۔
31 مئی 2025ء کی صبح کو بلدیہ خزاعہ نے اپنے ایک بیان میں اعلان کیا کہ قصبہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ یہ کوئی رسمی اعلان نہیں۔ یہ ایک چیخ ہے ایک اجڑے قافلے کی، ایک مظلوم قوم کی، جو نسل کشی کا شکارہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
جہاں کبھی سبزہ تھا، اب ملبہ ہے
مہینوں اسرائیلی طیاروں نے خزاعہ پر آگ برسائی اور اس کی سرسبز سرزمین کو خاک وخون میں نہلا دیا۔ زمین پر قابض اسرائیلی فوجی اپنی بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ داخل ہوئے اور ایک ایک عمارت، ایک ایک
گلی، حتیٰ کہ زندگی کی ہر سانس کو مٹی میں ملا دیا۔ سکول ملبہ بن گئے، ہسپتال راکھ ہو گئے، سڑکیں کٹ گئیں، پانی خشک ہو گیا، بجلی ختم ہو گئی اور یوں خزاعہ کا نقشہ غزہ ہی سے نہیں بلکہ دنیا کے ضمیر سے بھی مٹا دیا گیا۔
اب وہاں نہ بچوں کی آواز ہے، نہ اذان کی صدا۔ وہاں صرف دھواں ہے، موت کی بو ہے اور ایک ایسی خاموشی جو دل کے پردے چاک کر دیتی ہے۔
خزاعہ… مکمل تباہی کی تصویر
بلدیہ خزاعہ نے اپنے دلخراش بیان میں کہا کہ "ہم اعلان کرتے ہیں کہ خزاعہ مکمل طور پر تباہ شدہ علاقہ ہے۔ قابض اسرائیل کی جنگی مشین نے ہر عمارت، ہر سکول، ہر ہسپتال اور ہر گلی کو نشانہ بنایا۔ بنیادی ڈھانچے کو نیست و نابود کر دیا گیا۔ یہاں اب جینا ممکن نہیں رہا”۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ”یہ محض بمباری نہیں، یہ ایک منصوبہ بند نسل کشی ہے، ایک ایسی جنگ جو قانونِ انسانیت کی دھجیاں بکھیر رہی ہے۔ خزاعہ اب انسانی زندگی کے دائرے سے باہر ہو چکا ہے۔ غزہ
کا یہ مقام پوری دنیا کے لیے ایک پیغام ہے کہ ایک منتقم مزاج نازی صہیونی دشمن کس طرح فلسطینی قوم کے وجود کو مٹانے کے لیے دور جدید کے تباہ کن جنگی ہتھیاروں کو اپنے مکروہ مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے ہنستے بستے علاقوں کو ملبے کا ڈھیر بنا رہا ہے”۔
نقل مکانی نہیں، جلاوطنی
خزاعہ کے باسی جنہوں نے صدیوں سے اس زمین پر بسیرے کیے، اب اپنے ہی وطن میں بےوطن ہو چکے ہیں۔ ایک ماں ام یوسف کی آنکھوں سے بہتے آنسو لفظوں کو ڈبو دیتے ہیں۔ "بس بچوں کو لے کر نکل آئے، پیچھے سب کچھ جل گیا. گھر، کپڑے، یادیں، خواب سب کچھ خاک ہو گیا”۔
نکالے گئے لوگوں نے راتیں کھلے آسمان کے نیچے گزاریں۔ یا پھر ان سکولوں میں جہاں نہ چھت سلامت ہے، نہ دیوار۔ خوراک نایاب، دوا ناپید اور انسانیت نادارد ہے۔ وہ بستیاں جو کبھی آباد تھیں، اب صرف ماتم کدہ ہیں۔
دنیا کی خاموشی… جرم میں شراکت
بلدیہ خزاعہ نے دنیا کے ضمیر کو پکارتے ہوئے کہا کہ "یہ محض ایک حادثہ نہیں، یہ ایک جرم ہے۔ ایک ایسا جرم جسے امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے، اور عالمی برادری کی خاموشی نے اسے مزید وحشی بنا دیا ہے۔”
بیان میں کہا گیا کہ”جب ظالم کھل کر ظلم کرے اور دنیا نظریں پھیر لے، تو یہ خاموشی بھی جرم بن جاتی ہے۔ یہ انسانیت کے چہرے پر ایک ایسا داغ ہے جو صدیوں نہیں دھلے گا”۔
خزاعہ کی کہانی، غزہ کی داستان
خزاعة اکیلا نہیں۔ 7 اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک 1 لاکھ 78 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں۔ 11 ہزار سے زائد لاپتہ ہیں اور 17 لاکھ سے زیادہ لوگ جبری ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔
خواتین، بچے، بزرگ سب اس نسل کشی کے نشانے پر ہیں۔ ہسپتال، پناہ گاہیں، امدادی قافلے سب پر حملے ہو رہے ہیں۔ غزہ میں دن کا سکون بچا ہے، نہ رات کی پناہ۔ ہر لمحہ زندگی سے زیادہ موت کا پیغام لے کر آتا ہے۔
خزاعہ… مٹی پر لکھی ایک صدا
خزاعة مٹایا جا چکا ہے، مگر اس کے ملبے سے ایک آواز ابھرتی ہے… وہ آواز جو ظلم کے مقابل کھڑی ہے،وہ آواز جو کہتی ہے "ہم ابھی زندہ ہیں”
وہ آواز جو تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ گواہی دے گی کہ یہاں کبھی ایک بستی تھی، جسے صہیونی درندگی نے برباد کیا۔مگر اس بربادی سے بھی ایک نئی مزاحمت نے جنم لیا۔
خزاعہ مٹ گیا مگر فلسطینی قوم کا جذبہ نہیں مٹا نہ مٹ سکتا ہے۔ خزاعہ اب فلسطین کی روح کا حصہ ہے، ایک ایسی روح جو جھکتی ہے، نہ بکتی ہے اور نہ مٹتی ہے۔