حیدرآباد اردو کاعظیم مرکزـ دکھنی لب ولہجہ کی چاشنی بیحد مقبول
اصناف سخن کی چوتھی نشست ـ پروفیسرایس اے شکور' مولانا مظفر علی صوفی ابوالعلائی اور جاوید کمال کا خطاب ـ شرکاء کی دلچسپی کوخراج تحسین

حیدرآباد یکم جون ( محمد حسام الدین ریاض ) حیدرآباد اردوکا عظیم مرکز ہے یہاں کی محبت ‘ رواداری اور خلوص دنیا بھر میں مشہور ومثالی ہے اردوزبان کی خاص خوبی یہ ہیکہ وہ سب ہی زبان والوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ان خیالات کااظہار پروفیسر ایس اے شکور نے انجمن ریختہ گویان کے زیراہتمام یکم جون کو ابوالکلام آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں منعقدہ اصناف سخن گوئی کی چوتھی نشست سے صدارتی خطاب کے دوران کیا پروفیسر ایس اے شکور نے سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوۓ
کہا کہ ادارہ ادبیات اردوپنجہ گٹہ حیدرآباد میں 60ہزار سے زائد کتب کاذخیرہ موجود ہے جس میں دکھنی زبان کی کم وبیش تیس ہزار کتابیں موجودہیں دکھنی لب ولہجہ کا مزہ کچھ اور ہی ہے اب یہ لب ولہجہ بہت ہی کمیاب ہوگیا ہے انہوں نے اس سلسلہ میں ممتاز ومعروف دکھنی لب ولہجہ کے شاعر گلی نلگنڈوی کی شاعری کو بھر پورخراج خراج عقیدت پیش کیا انہوں نے بتایا کہ گلی نلگنڈوی کا کلام چیدہ چیدہ دستیاب ہواتھا وہ کافی مقبول شاعر تھے
انہوں نے عوامی جذبات واحساسات کی بھر پورترجمانی کی ہے 40برس کی عمر میں کئی غزلیں لکھیں لیکن زندگی نے وفاء نہیں کیا اور وہ بہت ہی کم عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے انہوں نے کہاکہ اردو ایک زندہ زبان ہے اس کے ختم ہوجانے یا اسے مستقبل میں خطرہ کی باتیں درست نہیں ہیں
پروفیسرایس اے شکورنے مزید کہاکہ وہ زبانیں ختم نہیں ہوتیں جن کی بولیاں ہوتی ہیں انہوں نے کہاکہ موجودہ دور میں ہندی زبان کو قومی سطح پرآگے بڑھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن تاملناڈو اورتلنگانہ کے علاوہ دیگر ریاستوں نے اس کی کھل کر مخالفت کی ہے انہوں نے کہاکہ ہرزبان کی ایک تاریخ اورتہذیب ہوتی ہے اس پر کسی دوسری زبان کا تسلط غیر آئینی ہی سمجھا جاۓ گا انہوں نے اس محفل میں کے شرکاء اور ان کی اردو زبان سے دلچسپی پر اظہار مسرت کرتے ہوئےخراج تحسین پیش کیا مولانا صوفی صابرعلی ابوالعلائی نے محفل کی ستائش کی اور جاویدکمال کی اردودوستی اورفروغ اردو کے لئیے کی جانے والی خدمات کو خراج تحسین اداکیا جناب جاوید کمال نے کہا کہ اس محفل کے انعقاد کا مقصد عوام کو کلاسیکل ادب کے ساتھ ساتھ جدید اردو ادب کی اصناف سے واقف کرانا ہے اس موقع پرسلیمان خطیب کی
مشہورومعروف نظم "ساس بہو” کو رفیعہ نوشین اورڈاکٹرعطیہ مجیب عارفی نے نہایت ہی خوبصورت ودلکش انداز میں پیش کیا جسے سامعین نے بیحد پسند کیا رفیعہ نوشین کا بطور ساس دکھنی انداز کافی دلچسپ رہاممتاز مزاحیہ شاعر جناب لطیف الدین لطیف نے دکھنی انداز میں غزلیں سنائیں جسے سامعین نے بیحد سراہا ڈاکٹرثمینہ اور جاوید محی الدین ” آخری نوٹس وجوابی نوٹس ” پیش کیا "داستان سب رس از ملا وجہی کو ڈاکٹر حمیرہ سعید نے پیش کیا ممتاز سینیئر صحافی جناب کے این واصف نے افسانچہ پیش کیاڈاکٹر جاوید کمال اور رفیعہ نوشین نے دکھنی محاورے پیش کئیے جناب محمد حسام الدین ریاض نے مضمون ” قربانی خوشدلی سے کریں "سنایا جسے بیحد پسند کیا گیا اس مضمون میں حسام الدین ریاض نے قربانی کے جانوروں کی خریدوفروخت اور قربانی کے مواقع پر ہونے والے بعض مسائل پر سنجیدہ ومزاحیہ گفتگو کی
اس موقع پر سینئر صحافی جناب جے ایس افتخار’ جناب سید ظہورالدین نائب صدرنشین دی سکندرآباد کوآپریٹو بنک ‘سلیم فاروقی (اردواکیڈیمی جدہ)’غوث ارسلان ‘جبارفریددرانی ‘بصیرخالد’سیف الدین’ صفی اللہ’محمدعمر’فضل عمر’بہاءالدین ‘ایم اے صبور ‘پرویزجگنو’ جسوین جئے رتھ ‘مجیب النساء ‘ واجدہ بیگم ( ٹمریز)’ڈاکٹر حمیدہ بیگم ( وجئے نگر کالونی )’ مومنہ امتہ اللہ فاونڈر پرنسپل بلومنگ بڈس مونٹیسوری ٹولی چوکی ‘ مہرفاطمہ’زبیدہ بیگم ‘فہمیدہ بیگم ‘ثریا جبین اوردیگرمعززین نے شرکت کی محترمہ صائمہ متین نے شکریہ ادا کیا
اس موقع پر صاحبزادہ محمود ( مسقط ) ایم اے عثمانیہ کی تحریر کردہ دوکتابیں سیرت اِن قرآن ( مکی دور ـ مدنی دور) اور کے این واصف کے خاکوں پر مشتمل کتاب ذکرِ یاراں ‘ شرکاء میں بطورتحفہ تقسیم کئیے گئے.