حضرات یوسفین رحہ دلوں پر حکومت کرنے والی دو عظیم المرتبت شخصیات

حضرات یوسفین رحہ دلوں پر حکومت کرنے والی دو عظیم المرتبت شخصیات ہیں ،زیارت قبور اور اس کا طریقہ،کی فکری نشست سے خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد یکم جون (پریس ریلیز ) چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آج صدر دفتر بنجارہلزروڑنمبر12پرمنعقدہ، زیارت قبور اور اس کا طریقہ،کی فکری نشست گے دوران گفتگو بتلایا کہ مزارتِ اولیاء منبع ِانوار و تجلیات ہوتے ہیں ،ان پر حاضری دینے سے دلوں کو راحت ملتی ہے اور بے شمار دینی و دنیوی فوائد حاصل ہوتے ہیں،واضح رہےکہ قبروں کی زیارت یا اولیائے کرام کے مزارات پر جانافی نفسہ جائزہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کوموت اورآخرت کی یاددہانی کےلیے قبروں پر جانے کی ترغیب دی ہے،البتہ وہاں جاکر سنت کے مطابق زیارت ِقبور کرنا چاہیے،قبرستان جانے کامسنون طریقہ یہ ہے کہ قبرستان داخل ہوتے وقت سب سے پہلے یہ دعا پڑھے "السلام عليكم يا أهل القبور يغفر الله لنا ولكم، أنتم سلفنا ونحن بالأثر”اور بہتر یہ ہے کہ قبر کی جانب پاؤں کی طرف سے آئے ،سر کی طرف سے نہ آئے اور قبر پر پہنچ کر قبلہ کی طرف پشت کرکے میت کے چہرہ کے رخ کی سمت میں کھڑا ہوجائے،اس کے بعد قران کریم کی تلاوت اور کچھ ذکرو اذکار کرکے تمام قبرستان والوں کو بخش دےاور افضل یہ ہے کہ تمام مؤمنین کی نیت کرلے اور اس کے بعد ان کے لیے استغفار بھی کرے،بعض روایات میں سورۂ یسین ،سورۂ فاتحہ ،سورۂ تبارک الذی ،سورۂ زلزال ،سورۂ التکاثر اور آیت الکرسی وغیرہ پڑھنے کی بھی فضیلت آئی ہے،جو کچھ بھی یاد ہو پڑھ سکتاہےاور یہ کھڑے ہوکر اور بیٹھ کر دونوں طرح پڑھ سکتاہے،اور جب ان کے لیے دعا کرےتو قبر کی طرف پشت کرکے قبلہ رخ ہوکر دعاکرے ہاتھ اٹھا کر اور بغیر ہاتھ اٹھائے دونوں طرح دعا کرنا درست ہے ، بہتر یہ ہے کہ ہر ہفتے زیارتِ قبور کے لیے جائےاورزیارتِ قبور کے لیے کسی بھی دن قبرستان جاسکتے ہیں،تاہم جمعہ ، ہفتہ،پیر اور جمعرات کے دن قبرستان جانازیادہ افضل ہے،مزارات پر جانا مستحسن عمل ہے ، نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شہدائے احد کے مزار پر ہر سال تشریف لے جایا کرتے تھے ، چنانچہ مصنف عبد الرزاق میں ہے ”“ ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سال کے شروع میں شہداء ِ احد کے مزارات پر تشریف لے جایا کرتے تھے اور فرماتے:’’ السلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار “راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر ، عمر، عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْبھی ایسا ہی کیاکرتے تھے ۔ بزرگانِ دین کےمزارات پر جاکرایصالِ ثواب کرنااوران کے وسیلے سے دعائیں مانگنااسلاف کاطریقہ رہا ہے،جیسا کہ شیخ شہاب الدین احمد بن حجر ہیتمی مکی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات :972ھ)لکھتےہیں “ترجمہ:ہمیشہ سے علماءاورحاجت مند لوگ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کےمزار کی زیارت کرتےاوراپنی حاجتیں پوراکرنے کے لیے آپ کا وسیلہ پیش کرتے رہے ہیں اور اسے اپنے لیے باعث شرف سمجھتے ہیں،انہی علما میں سے حضرت امام شافعی رحمۃاللہ علیہ بھی ہیں، جن کے متعلق یہ بات مروی ہےکہ آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :جب میں بغدادمیں قیام پذیر تھا، تو امامِ اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سےبرکت حاصل کیاکرتاتھا ،جب مجھےکوئی حاجت پیش آتی تو میں امام اعظم کے مزار پر آتااوردورکعتیں پڑھتا،پھر ان کی قبر مبارک پرحاضری دیتا اوروہاں اللہ پاک سےدعاکرتا،توفوراًمیری حاجت پوری ہو جاتی ۔ارشادِ باری تعالٰی ہےترجمہ :بیشک وہ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے عنقریب رحمٰن ان کے لیے محبت پیدا کردے گا۔(پ16،مریم:96)تفسیر: اس آیتِ مبارَکہ کی تفسیر میں اکثر مفسّرین نے بخاری و مسلم کی ذیل میں درج حدیثِ پاک بیان فرمائی ہے: حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب اللّٰہ تعالٰی کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو حضرت جبریل علیہ السَّلام کو ندا کی جاتی ہے کہ اللّٰہ تعالٰی فلاں بندے سے محبت کرتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، تو جبریل علیہ السَّلام اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر حضرت جبریل علیہ السَّلام آسمان والوں میں ندا کرتے ہیں کہ اللّٰہ تعالٰی فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر زمین والوں میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔(بخاری،ج2،ص382، حدیث:3209-مسلم، ص1086، حدیث:6705)
ترمذی شریف میں حدیثِ مذکور کا آیتِ بالا کی تفسیر میں بیان کرنا خود نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بھی مذکور ہے۔ (ترمذی،ج5،ص109، حدیث:3172) حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالٰی نیک آدمی کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے اور ”وُدًّا“ کی تفسیر میں مزید فرمایا کہ اس سے مراد دنیا میں اچھی روزی، لوگوں کی زبانوں پر ذکرِ خیر اور مسلمانوں کے دلوں میں محبت ہے۔ امام مجاہد رحمہ اللّٰہ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالٰی خود اس بندے سے محبت فرماتا ہے اور مخلوق کا محبوب بنا دیتا ہے۔(تفسیر طبری،ج 8،ص385، مریم، تحت الآیہ:96) حضرت ہرم بن حیان رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: جب بندہ اپنے دل سے اللّٰہ تعالٰی کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اللّٰہ تعالٰی اہلِ ایمان کے دلوں کو اس کی طرف متوجہ کر دیتا ہے یہاں تک کہ اسے لوگوں کی محبت و شفقت عطا کر دیتا ہے۔
علّامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے تاویلاتِ نجمیہ کے حوالے سے ایمان، اعمالِ صالحہ اور اُن کے ثمرات کو ایک خوبصورت مثال کے انداز میں یوں بیان فرمایا ہے: یہ آیت اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب ایمان کا بیج دل کی زمین میں بویا جائے اور نیک اعمال کے پانی سے اس کی پرورش کی جائے تو وہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا پھل نکل آتا ہے اور اس کا پھل اللّٰہ تعالٰی کی محبت، انبیاء کرام علیہمُ الصَّلوٰۃ و السَّلام، فرشتوں اور مؤمنین سب کی محبت ہے۔(روح البیان،ج 5،ص359، مریم، تحت الآیہ:96)
آیت و حدیث کے فرمان سے معلوم ہوا کہ مؤمنینِ صالحین و اولیائے کاملین کی مقبولیتِ عامہ ان کی محبوبیتِ خداوندی کی دلیل اور خاص عطیہ الٰہیہ ہے جس کا زندہ ثبوت حضرت سیّدنا غوثِ اعظم دستگیر رحہ، حضرت خواجہ غریبِ نوازرحہ، حضرت بابا فرید گنجِ شکررحہ، حضرت مجدد الف ثانی، اور ہزاروں اولیاء کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم کی مبارک ہستیوں کی صورت میں موجود ہے۔ فرمانِ حدیث کے مطابق لوگوں کے دل صالحین و اولیاء کی طرف قدرتی طور پر راغب ہوجاتے ہیں، وہ اپنی شہرت و مقبولیت کے لئے کوئی اہتمام نہیں کرتے جیسا کہ امام فخر الدّین رازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں کہ یہاں ایک قول یہ ہے کہ اللّٰہ تعالٰی صالحین کے لئے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا فرما دیتا ہے حالانکہ وہ نیک لوگ نہ تو لوگوں سے محبت طلب کرتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کی نظر میں پسندیدہ بننے کے اسباب اختیار کرتے ہیں بلکہ یہ (لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرنا) خاص اللّٰہ تعالٰی کا فعل ہوتا ہے۔(تفسیر کبیر،ج 7،ص567، مریم، تحت الآیہ:96)
اِس آیتِ مبارَکہ کے معانی اور اولیاء کرام کے اعمالِ صالحہ، اخلاقِ حسنہ، خصائلِ جمیلہ اور اوصافِ حمیدہ کو دیکھتے ہیں تو قرآن پاک کی صداقت پر ایمان تازہ ہوجاتا ہے چنانچہ مختلف اولیاء کرام کی سیرت کو ایک نظر دیکھیں تو ایمان کے درخت پر اعمالِ صالحہ کی شاخیں جھومتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کی زندگی کتاب و سنّت کی پیروی، علم و عمل میں موافقت، آخرت کی دنیا پر ترجیح کا مظہر ہوگی، ان کے شب و روز کے معمولات میں شب بیداری، سوز و گداز، قیامُ اللیل، سجودِ محبت و خشیت، ذکرِ الٰہی، تلاوتِ قرآن، تفکر و تدبر، توبہ و استغفار نظر آئے گا۔ ان کے قلبی اعمال میں محاسبہِ اعمال، اخلاص و للہیت، صبر و شکر، توکل علی اللّٰہ، توحیدِ کامل، تسلیم و رضا، فقر و قناعت، زہد و ورع، فکرِ آخرت، محبت و رضائے الٰہی، خیر خواہی، احترامِ مسلم، حسنِ ظن کے روشن پہلو ہوں گے۔ ان کے قول و فعل میں نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو، مسلمانوں سے حسنِ ظن، عفو و درگزر، چشم پوشی، مخالفین کے ساتھ حسنِ سلوک، حقوقُ العباد کی ادائیگی، مخلوق پر شفقت و رحمت کا ظہور ہوگا، ان کا شیوہ عاجزی و انکساری ہوگا اور ان سب کے باوجود اللّٰہ تعالٰی کی خفیہ تدبیر اور بُرے خاتمے سے ڈرتے ہوں گے۔
یہ وہ ہیں جن پر مؤمنین، صالحین، متقین، صابرین، شاکرین، خاشعین، مطیعین، متوکلین، محبین، ناصحین، اصحابِِ یمین وغیرہا کے اوصاف کھلی آنکھوں نظر آئیں گے اور ان کے صلہ میں اللّٰہ تعالٰی ان کی محبت و عقیدت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ دیکھ لیں، آج اولیاء اللّٰہاپنے مزارات میں سو رہے ہیں اور لوگ ان کی طرف کھنچے چلے جا رہے ہیں حالانکہ سابقہ زمانے کے صالحین کو ہم میں سے کسی نے دیکھا بھی نہیں ،خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے مذید بتلایا کہ حیدرآباد دکن کو اولیاء کرام کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ حضرات یوسفینؒ کا شمار سلسلۂ چشتیہ میں معروف ترین بزرگان دین میں ہوتا ہے۔ آپ حضرات دلوں پر حکومت کرنے والی دو عظیم المرتبت ہردلعزیز اور پیاری شخصیتوں کا ہے جنھیں اللہ پاک نے اپنے ولیوں میں وہ مقام رفیع عطا فرمایا ہے کہ بلالحاظ مذہب وملت زائد از پچھلے تین سو سال سے ہر کوئی ان سے واقف اور مخلوق کثیر ان سے فیضیاب ہوتی رہی ہے اور فیضان کا یہ سلسلہ آج بھی پوری آ ب وتاب کے ساتھ جاری ہے ۔ شہر کے بیچوں بیچ علاقہ نامپلی اسٹیشن کے قریب میں آرام فرما ـ’’حضرات یوسفینؒ ‘‘ سے ہے جو یوسف بابا ؒشریف بابا ؒکے نام سے عرف عام میں معروف ومقبول ہیں ۔
ایک ہی گنبد میں جو دونوں حضرات آرام فرماہیں اُن میں سے ایک کا اسم گرامی حضرت سیدنا شاہ ’’یوسف‘‘قادری چشتی ؒہے دوسرے حضرت سیدنا شاہ شریف الدین قادری چشتیؒ ہیں ۔دونوں ’’ یوسف صاحبؒ شریف صاحبؒ‘‘سے بھی مشہورہیں۔مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کے مطابق آپ حضرات کا تعلق آل فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے ۔
۔حضرت یوسف صاحبؒ مصر سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ حضرت شریف صاحب ؒکا وطن مالوف ملک شام کا سرحدی علاقہ کنعان ہے ان دونوں حضرات حج بیت اللہ و زیارت روضۂ رسول پاک ﷺ کے ارادہ سے اپنے اپنے مقام سے نکلے دوران سفر ایک منزل پر دونوں کی ملاقات ہوئی مزاج کی ہم آہنگی مقصد کی یگانگی کے باعث دونوں دوست آپس میں حقیقی بھائیوں سے بھی زیادہ محبت رکھتے تھے ۔حج کی وجہ عرفاتی بھائی ہوگئے بعد میں ایک ہی پیر ومرشد ؒ کے مرید ہونے کی وجہ سے برادرانِ طریقت یعنی پیر بھائی بھی بن گئے اور ساتھ ساتھ رہ کر زندگی کی کٹھن منزلوں کا سفر اختیار کیااور دور دراز کے سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوے دیارِ غیر کابل‘اکبرآباد ‘(آگرہ) ‘دہلی وغیرہ سے ہوتے ہوئے جنوبی ہند میں تشریف فرما ہوے اورسرزمین دکن کو اپنی خوابگاہ کی زینت سے دوبالافرما یا ۔
: یہ دو نوں بزرگ باوجود اپنی عظمت کے سلسلۂ قادریہ عالیہ وسلسلہ چشتیہ بہشتیہ میں حضرت شاہ کلیم اللہ شاہجہاں آبادی قدس سر(المتوفی۱۱۴۲ھ) سے حجاز مقدس میں حج بیت اللہ کے موقع پر جب ملاقات کئے تو روحانی فیضان حاصل کیا اور وہیں پر سلسلہ قادریہ وچشتیہ میں حضرت کلیم اللہ ؒ کے دست مبارک پر مرید ہوئے اور پھر اس کے بعد مرشد کی کشش نے حجاز مقدس سے ان دونوں بھائیوں کو ہندوستان کی سرزمین پر پہنچادیا ۔حضرت شاہ کلیم اللہ شاہجہاں آبادیؒ کا مزار پُر انواردہلی میں جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیا ن واقع اور زیارت گاہ خاص وعام ہیآپ ہی سے سلسلہ چشتیہ کی ایک شاخ سلسلہ کلیمیہ سے موسوم ہوکر خوب پھیلی ۔ ان دونوں بھائیوں نے بہادر شاہ (ابن اورنگ زیب عالمگیرؒ) کے لشکر میں ملازمت اختیار کی ۔دوسرا قول:صاحب مخازن الاعراس لکھتے ہیں کہ حضرت یوسف باباؒ و حضرت شریف بابا ؒبہادر شاہ بادشاہ کے وزیر خانخاناںکے پاس فوجی لشکر سے وابستہ تھے ۔تیسرا قول:صاحب تاریخ خورشید جاہی نے لکھا کہ’’آپ اول سپاہ گری میں استاد تھے سرآمد سپاہیان روزگارِ علم وشمشیر بازی اور تیر اندازی اور بعض ہنر وکسب میں جو بادشاہوں کے لئے کارآمد ہوتے ہیں ‘ شہ سوار تھے۔ چوتھا قول: تاریخ قطب شاہی کے مطابق سلطان محمد قطب شاہ والدسلطان عبد اللہ قطب شاہ کے استاد تھے معاش کی فراغت بہت رکھتے تھے۔مذکورہ بالااقوال میں چوتھا قول بعید از حقیقت معلوم ہوتا ہے۔
اورنگ زیب عالمگیرؒ نے جب گولکنڈہ پر چڑہائی کی تو اس وقت مغل فوج میں یہ دونوں بزرگ حضرات یوسفین ؒ بھی شامل تھے اور فتح گولکنڈہ کے روحانی پس منظر میں حضرات یوسفین ؒ کی کارفرمائی کا ذکر بھی کیا ہے
آپ حضرات ؒچونکہ بحر ولایت کے غواص تھے آپکا ہر عمل کرامت اور ہر بات اعجاز آفریں تھی آپ سے بہت ساری کرامات کا صدور ہوا تاہم اُس مشہور کرامت کے لکھنے پر اکتفا کیا جاتا ہے جو خاص وعام میں مشہور اور کتب کثیرہ میں مرقوم ہے کہ جب بادشاہی لشکر کے ساتھ حیدرآباد دکن میں آپ کی آمد ہوی اور پھر لشکر نے چاروں طرف ڈیرے ڈالدئے اور آپ حضرات کا خیمہ اُس جگہ پر نصب تھا جہاں آج آپ کا مزار پُر انوار مرجع خلائق ہے اس رات اتفاق سے شدید بارش اور اس قدر تیز وتند ہوا چلی کہ تمام ڈیرے اور خیمے ہوا کی شدت کے سامنے ٹک نہ سکے اور سارا لشکر پریشان سارے لشکری حیران تھے مگر خدا کی شان کہ ان دونوں بزرگوں کا چھوٹا سا خیمہ مضبوطی کے ساتھ قائم رہا تیز آندھی اس خیمہ کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکی اور پھر مزید یہ کہ اس ہوا سے گرد وغبار کی کثرت و بارش کی شدت نے جہاں سارے چراغ بچھادئے تھے چاروں طرف اندھیرے کا راج تھا مگر حضرات یوسفین ؒ کا چراغ روشن تھا نہ خیمہ ہل سکا نہ ہی چراغ گُل ہوا بلکہ یہ دونوں بھائی قرآن کی تلاوت اور خدائے رحمان کی عبادت میں مصروف بارش وہواکی شدت سے محفوظ تھے اہل لشکر نے جب آپ کی یہ حالت دیکھی تو راعی ورعایا سب پر آپ کی بزرگ وکرامت ظاہر ہوگئی۔
تب تک آپ کی قدر ومنزلت کسی کو معلوم نہ تھی پھر تو سب لوگ آپ کے عقیدت مندوں میں شامل ہوگئے ۔ ’’اورنگ زیب عالمگیر ؒ افغانستان کی شمالی سرحد بدخشاں اور بلخ میں کئی معرکہ سر کرچکا تھا لیکن( گولکنڈہ کے محاصرہ کا )یہ ایک ایسا معرکہ تھا کہ مسلسل آٹھ ماہ گذرنے پر بھی سر نہ ہوسکا ۔ایک رات بارش کی وجہ سے موسیٰ ندی میں سخت طغیانی آئی اور طوفانی ہواؤں سے میلوں تک پھیلے ہوئے مغل لشکر کے خیمے اُکھڑ گئے ہراسانی سی پھیل گئی عالمگیرؒ رات میں حسب معمول گشت اور مغل فوجوں کے لئے گوڑے پر سوار ہوکر نکلے مغل لشکر میلوں تک پھیلا ہوا تھا موسلا دھار بارش اور طوفانی ہواؤں کے باوجود دور سے ایک خیمہ میں چراغ جلتا ہوا نظر آیا قریب پہنچے تو دیکھا کہ دونورانی چہرے قرآنِ مجید کی تلاوت میں منہمک ہیں ‘‘ آگے لکھتے ہیں ’’تلاوت قرآن کے دوران جب حضرات یوسفینؒ نے نظر اُٹھائی تو دیکھا کہ عالمگیر ؒ ادب سے کھڑے ہیں اور قریب پہچ کر یوں عرض کرتے ہیں ’’تعجب ہے کہ آپ جیسی مقدس ہستیاں لشکر اسلام میں موجود ہوں اور قلعہ فتح نہ ہو‘‘ان دونوں بزرگوں نے بادشاہ کو ٹالنا چاہا لیکن وہ باز نہ آیا بالآخر اُن بزرگوں نے جب یہ دیکھا کہ قرآن مجید کی تلاوت میں حرج ہورہا ہے اس لئے کہا اچھا ٹھیکری لائیے اور پھر اس ٹھیکری پرکچھ لکھدیا اور کہا لنگر حوض کے قریب ایک جوتا ساز رہتا ہے یہ ٹھیکری لیجاکر اُس کے حوالہ کریں ۔تیز رفتار گھوڑے پر سوار بادشاہ ڈہونڈ تا ہوا اُس ٹھیکری کو جوتا ساز کے حوالہ کردیا عبارت پڑھکر جوتا ساز غضبناک ہوگیا اور بادشاہ کو غصہ سے گہورنے لگا پھر ٹھیکری کی دوسری جانت کچھ عبارت لکھ کر حوالہ کیا اور کہا لیجاکر اُنھیں کے حوالہ کردو بادشاہ سلامت ٹھیکری لیکر واپس ان دونوں بزرگوں حضرات یوسفین ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرات یوسفینؒ نے کہا’’کوئی غیبی طاقت قلعہ گولکنڈہ کی حفاظت کررہی ہے ‘‘ عالمگیر ؒ نے ادباً التجا کی پھر ایک بار کوشش کیجئے حضرت یوسف صاحب ؒ نے مکرر پھر کچھ لکھا اور کہا لیجاکر پھر اسی جوتا ساز کے حوالہ کیجئے عالمگیرؒ گھوڑا دوڑاتے ہوئے پھر لنگر حوض پہنچے اور ٹھیکری کی عبارت جوتا ساز کے حوالہ کی عبارت پڑھکر جوتا ساز دماغی کشمکش میں مبتلا ہوگیا اور ہاتھ کانپنے لگے پھر آب دیدہ ہوکر اُٹھا اور کہا ’’گذشتہ پچاس سال سے یہاں ٹھہرا ہواتھا جیتے جی مجھے یہاں سے اُٹھنا پڑا جاؤ اور جاکر کہدو کہ جوتا ساز چلاگیا ۔غرض عالمگیرؒ جب مغل لشکر میں پہنچے تو صبح کی اذان ہورہی تھی وضو کرکے نماز ِ باجماعت میں شریک ہوگئے اور نماز فجر کے بعد حضرت یوسف صاحبؒ اور حضرت شریف صاحب ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام ماجرا بیان کیا تو انہوں نے خوش خبری سنائی اور کہا آج رات ان شا ء اللہ قلعہ گولکنڈہ فتح ہوجائے گا۔پھر فتح کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وہ جوتا ساز نہ تھا بلکہ قطب زماں تھا اور پورے پچاس سال سے اپنی روحانی قوت کے ذریعہ قلعہ کی حفاظت کررہا تھا غرض رات میں مغل فوجیں قلعہ گولکنڈہ میں داخل ہوگئیں بعض مورخین نے لکھا ہے کہ ایک قطب شاہی فوجی افسر (عبد اللہ خان پنی ) مغل فوج سے ملگیا اور قلعہ گولکنڈہ کی ایک بڑی کھڑکی کھول دی اور اس راستہ سے مغل فوجیں قلعہ میں داخل ہوگئیں ۔خواہ کچھ ہو ‘ظاہری سبب ہو یا روحانی طاقت کا استعمال بہرحال آٹھ ماہ سے جو قلعہ سر نہ ہوا تھا وہ آناًفاناً فتح ہوگیا۔
یہ دونوں خاصان ِ خدا دین کے دو بھائی ایک ہی دن میں رحلت فرما ہوئے ہوا یون حضرت شاہ یوسف باباؒ بعارضہ بخار بیمار ہوئے اور ہفتہ عشرہ اسی حالت میں رہ کر پانچ ذی الحجہ ۱۱۲۱ھ وصال فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اس وقت حضرت شریف باباؒ موجود نہ تھے جب تشریف لائے اور معلوم ہوا کہ حضرت یوسف باباؒ کا وصال ہوچکا ہے یہ سنتے ہی نہایت غمگین ہوکر کہنے لگے کہ یہ بات شرط رفاقت سے بعید ہے کہ آپ اس جہاں میں نہ رہیں اور میں رہ جاؤں پھر باوضو ہوکر حجرہ میں داخل ہوئے اور سفید چادر چہرے پر ڈال کر لیٹ گئے اور اسی وقت آپ کی روح پرواز کرگئی انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خادموں نے دونوں برادرانِ وطن و طریقت کے غسل اور نماز جنازہ سے فراغت پائی اور ایک ہی مقام پر موضع نام پلی میں بادیدہ نم سپرد لحد کیا ۔اور اس کے بعد سے آپ کی بارگاہ زیارت گاہ خاص و عام بنی ہوئی ہے۔ہر دور کے شاہان وقت اور عوام وخواص کے علاوہ آزادئی ہند کے بعد سے چیف منسٹرس ودیگر وزرائے حکومت تلنگانہ حاضر ہوتے رہے ہیں ہر سال ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی ایام میں تقاریب عرس نہایت تزک واحتشام ‘عقیدت واحترام سے منعقد ہوا کرتا ہے جس میں لاکھوں عقیدت مندان حضرات ِ یوسفینؒ شرکت کرکے فیضیاب ہوا کرتے ہیں۔