عالمی زبان اُردوکی مقبولیت زندہ باد ‘ اُردو بولنے والوں کی تعداد ایک ارب سے تجاوز
دلیپ کمار کی "مغل اعظم" سے لے کر شاہ رخ خان کی "جوان" تک تمام ہندی فلموں کی اصل زبان اُردو ہی ہے

شجاعت علی ۔ ریٹائرڈ آئی آئی ایس
خسرو کی پہیلی، میر کی ہمراز، غالب کی سہیلی اُردو ‘انگریزی اور چینی کے بعد ہندی کے ساتھ ملاکر لگ بھگ 93 کروڑ افرادکی معشو ق زبان ہے۔ اگر خالص اُردو کی بات کی جائے تو یہ بھارت بھر میں 23 کروڑ کے ساتھ دسویں نمبر پر آتی ہے۔ ہماری اور آپ کی شیریں اُردو ویسے تو دنیا کے لگ بھگ سبھی نامور ملکوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے لیکن خاص طورپر متحدہ عرب امارات، برطانیہ اور امریکہ کے علاوہ بنگلہ دیش میں بولی اور سمجھی جاتی ہے جبکہ اسے پاکستان کی سرکاری زبان ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
اقوام متحدہ نے اُردو کو ایک اہم زبان کے طورپر قبول کرلیا ہے۔ تاہم اسے یو این او کی سرکاری زبان کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیاگیا ہے حالانکہ اقوام متحدہ کی چھ تسلیم شدہ زبانوں کے علاوہ اُردو کو بھی کمیونیکیشن کی زبان مانا گیا ہے۔ اقوام متحدہ سرکاری زبان کے ساتھ غیر سرکاری زبانوں کو جس میں اُردو بھی شامل ہیں مواصلات کے ذریعہ کے طورپر قبول کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اُردو کو اقوام متحدہ میں بات چیت کی زبان کے طورپر قبول کیا گیا ہے لیکن اسے سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ 2011 کے بعد ملک میں کوئی مردم شماری نہیں ہوئی ہے لیکن اس سال کی مردم شماری کے لحاظ سے اُردو ہندوستان کی ساتویں بڑی زبان رہی۔ آج ہندوستان میں خالص 10 کروڑ لوگ اُردو بولتے ہیں ، ہماری یہ زبان آئین میں تسلیم شدہ 22 سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے جسے تلنگانہ ، اترپردیش ، بہار، جھارکھنڈ ، بنگال اور دہلی میں سرکاری کام کاج کی زبان کی حیثیت حاصل ہے
جبکہ جموں و کشمیر کی سرکاری زبان بھی اُردو ہی ہے۔ اُردو کو نیپال کی رجسٹرڈ زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ Ethnologue کے 2018 کے ایڈیشن کے مطابق SIL International کے ذریعہ شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اُردو تقریباً 32.16 کروڑ لوگوں مادری زبان ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق اُردو سب سے زیادہ نفیس زبانو ںمیں سے ایک ہے جسے خوبصورتی اور شائستگی کا ایک انوکھا سنگم بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ زبان جہاں انقلاب زندہ آباد کا نعرہ لگاتی ہے وہیں یہ روح کو چھو جانے والی زبان بھی ہے۔ اُردو شاعری میں یا نثر میں جو انداز اپنایا جاتا ہے وہ دوسری کسی زبان میں دکھائی نہیں دیتا۔ اُردو جنوبی ایشیا کی ایک بڑی زبان ہے اور خلیجی خطہ کے علاوہ جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے، برطانیہ، امریکہ ،فرانس اور جرمنی میں بھی مسلسل مقبولیت کے جھنڈے گاڑھ رہی ہے۔
گیانا، ماریشس، نیپال اور جنوبی آفریقہ میں بھی اُرد و کا خوبصورت چلن روز بہ روز ترقی کرتا جارہا ہے۔ Ethnologue کے شمارہ کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک ارب سے زیادہ لوگ اُرد وبول رہے ہیں۔ اُردو زبان سب سے پہلے ہندوستان کے جنوبی علاقہ میں پھیلی ۔ محمد تغلق کے خلاف بغاوت کرکے بہمنی سلطنت قائم کرنے والے علاء الدین حسن بہمنی نے دکن میں اُردو کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ ایک سچائی ہے کہ دکن میں اُردو کا رابطہ مقامی لوگوں کے ذریعہ بولی جانے والی مراٹھی، تلگو اور کنڑی سے ہوا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اُردو یا ریختہ میں لکھی گئی پہلی کتابوں میں سے ایک کتاب حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی ’’ میراج العاشقین ہے‘‘ جن کا مزار مبارک گلبرگہ میں ہے۔
مختصر یہ کہ ہندوستان میں ہندی بولنے والوں کی تعداد ساٹھ کروڑ ، اُردو بولنے والوں کی مقدار 23 کروڑ ہوتی ہے یعنی ہندوستان ہی میں 93 کروڑ لوگ ملی جلی ہندی اور اُردو کا استعمال کرتے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق اس میں 10 کروڑ لوگوں کو ملا لیا جائے تو اُردو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد 103 کروڑ ہوجاتی ہے۔ اتنی عظیم الشان زبان کے بارے میں کچھ نادان لوگ کہتے ہیں کہ اُردو زوال پذیر ہے تو ان کے اس رویہ پر افسوس کے علاوہ کیا کیا جاسکتا ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں اقبال اشہر اس شکوہ کو کہ
اپنے ہی وطن میں میں ہوں مگر آج اکیلی
اُردو ہے میرا نام میں خسرو کی سہیلی
بجا نہیں قرار دیا جاسکتا۔