ادارہ ادب اسلامی ہند شہر حیدرآباد کے زیراہتمام سالانہ ایوارڈتقریب و مشاعرے کا کامیاب انعقاد

*ڈاکٹر مصطفی کمال کو دیرینہ ادبی خدمات پر ادارہ ادب اسلامی ہندکی جانب سے قمرؔ رضا ایوارڈ*
*مشاعروں کو ادبی اور فکری تربیت گاہ بنائیں: امیر حلقہ ڈاکٹرمحمد خالد مبشر الظفر*
*پروفیسر ایس اے شکور نے بھی مخاطب کیا،مقامی و بیرونی شعراء نے کلام سنایا*
ادارہ ادب اسلامی ہند شہر حیدرآباد کے زیراہتمام سالانہ ایوارڈتقریب و مشاعرے کا کامیاب انعقاد
ادارہ ادب اسلامی ہند شہر حیدرآباد کا سالانہ قمرؔ رضا ایوارڈ و مشاعرہ بروزجمعہ 13 جون کی شب اردو گھر مغلپورہ پر ڈاکٹرمحمد خالد مبشر الظفر،امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند،تلنگانہ وسرپرست ادارہ ادب اسلامی ہند،تلنگانہ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے ”اردو شاعری اور مشاعرے: معیار و توقعات“ کے عنوان پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ایک ادبی موضوع نہیں، بلکہ اردو تہذیب، فکر اور زبان کی بقا سے جڑا ہوا ایک سنجیدہ سوال ہے۔اردو شاعری صرف قافیہ پیمائی یا جذبات کی نغمگی نہیں، بلکہ ہمارے قومی شعور، سماجی تجربے، فکری گہرائی اور تہذیبی اقدار کی نمائندہ ہے۔غالب ؔنے اس میں فکر کی رفعت دی، اقبالؔ نے اسے ملت کا پیامبر بنایا، میرؔ نے درد کی دھڑکن دی، حفیظؔ میرٹھی نے مقصدیت اور فیضؔ نے اسے انقلاب کی زبان بنادیا۔
انہوں نے ایک شاعر کی ذمہ داری کہ حوالہ سے کہا کہ ایک شاعر، محض سامعین کو محظوظ کرنے والا نہیں، زمانے کا نباض، دل کا ترجمان، اور ضمیر کا قاصد ہوتا ہے۔اسے زبان کے حسن کی حفاظت کے ساتھ ساتھ فکر و آگہی کا علمبردار بننا چاہئے۔شاعری کو تفریح سے نکال کر تربیت، بیداری اور فکری رہنمائی کا ذریعہ بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ اپنی فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ زمانہ میں قافیہ بازی کا چلن ہے، فکر غائب ہے۔طنز، جگت، اور عوامی نعرہ بازی غالب ہے اور زبان و بیان کی لطافت معدوم جبکہ نوجوان سامعین کے ذوق کو بلند کرنے کے بجائے، اس سے سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر ایم کے ایم ظفر نے معیاری شاعری کی خصوصیات بتاتے ہوئے کہا کہ زبان کی صفائی اور سلاست،خیال کی جدت اور وسعت،وزن و بحر کی پابندی اوراخلاقی، سماجی یا فکری پیغام اگر یہ اجزاء شاعری میں نہیں، تو وہ صرف لفاظی رہ جاتی ہے، شاعری نہیں۔انہوں نے مشاعروں کے منتظمین کومشورہ دیا کہ وہ معیار پر سمجھوتہ نہ کریں۔صرف معروف نام نہیں بلکہ معیاری کلام کو جگہ دیں اورمشاعروں کو ادبی اور فکری تربیت گاہ بنائیں۔مہمان خصوصی پروفیسر ایس اے شکور نے کہا کہ میں سب سے پہلے اس بامقصد اور باوقار مشاعرے کے انعقاد پر منتظمین کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں
۔انہوں نے ادارہ ادب اسلامی ہند،شہر حیدرآبادکی جانب سے گزشتہ ساٹھ سالوں سے پابندی سے مشاعرہ منعقد کرنے اور گزشتہ پانچ سالوں سے قمرؔرضا ایوارڈکا سلسلہ جاری رکھنے پر بھی منتظمین کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دی۔انہوں نے کہا کہ اردو کے حوالہ سے ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آج بھی بہت سے سنجیدہ شعرا، فکری حلقے، اور ادبی تنظیمیں اردو شاعری کی روح کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔اور اگر ہم شاعری کو مقصد، پیغام اور تہذیبی شعور سے جوڑ دیں،مشاعروں کو سنجیدہ گفتگو کا ذریعہ بنائیں اور زبان کے حسن کو شعوری طور پر فروغ دیں تو یقیناً اردو شاعری کا مستقبل روشن ہوگا،
اور مشاعرہ زبان کا فخر بن کر ابھرے گا۔حیدرآباد کے معروف بزرگ سنئیر صحافی اورماہ نامہ شگوفہ کے ایڈیٹر ڈاکٹر مصطفی کمال کو ان کی دیرینہ ادبی خدمات پر قمرؔ رضا ایوارڈ عطا کیا گیا۔ ابتدا میں جناب ظفرؔ فاروقی،سکریٹری ادارہ ادب اسلامی ہند،تلنگانہ کی تلاوت وترجمانی کے بعد مشاعرے کا آغاز ہوا۔جنید حسینی اور ماجد خلیل کی نعت کے بعد غزل کے دور میں ڈاکٹر محسن جلگانوی، ڈاکٹر فاروق شکیل سردار سلیم،ابو نبیل، شریف اطہر، فیاض علی سکندر،ناصر واحدی،طاہر گلشن آبادی، سیف نظامی، ارشد شرفی،کوکب ذکی، رفیع اللہ رفیع، جاوید احمد خان، ساجد علی جوش،سید پاشاہ رہبر،نجیب بیانانی، طیب پاشاہ قادری،انجنی کمار گویل،نعیم سلیم شکیل،حیدر نوید جعفری،سعداللہ سبیل،رفیق جگر پر،وفیسر مسعود احمد سراج یعقوبی، زاہد ہریانوی، شکیل ظہیر آبادی،یم یم عارف،جہانگیر قیاس،معراج صدیقی، شکور شاداب اور ظفر فاروقی نے کلام سنا کر سامعین سے خوب داد پائی۔ درمیان میں طنز و مزاح کے ممتاز شاعر وحید پاشاہ قادری نے اپنے مزاحیہ کلام سے محفل کو زعفران زار بنایا۔ آخر میں ناظم مشاعرہ ظفرؔ فاروقی کے شکریہ پر یہ خوشگوار محفل اختتام کو پہنچی۔