حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کی ترغیب وتعلیم میں مذہبِ اسلام کا کوئی ثانی نہیںحج کے اجتماع سے مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کی ترغیب وتعلیم میں مذہبِ اسلام کا کوئی ثانی نہیںحج کے اجتماع سے مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد20جون (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آج وہ ابنے خطاب کرتےہوئے بتلایا کہ آقائے دوجہاں نبی آخر الزماں جناب رسول اللہﷺ کے اعلیٰ اخلاق کو اگر دو حصوں میں تقسیم کریں تو دو اوصافِ کریمانہ معرض وجود میں آتے ہیں:
1۔ شخصی اوصاف2۔معاشرتی اوصاف
ان اوصاف میں سے ایک وصف کو حقوق اللہ کی ادائیگی کا وصف اور دوسرے وصف کو حقوق العباد کی ادائیگی کا وصف قرار دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید فرقان عظیم کی رو سے یہی اوصاف حضور نبی اکرمﷺ کی پہچان ہیں اور کامل ایمان کی بنیاد بھی ہیں۔انھوں نے مزید بتلایا کہ شریعتِ اسلامیہ میں مساکین وغرباء کو کھانا کھلانے اور ان کی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کی بار بار ترغیب وتعلیم دی گئی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیا کہ:’’ اسلام میں کون سا عمل زیادہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو کھانا کھلانا اور ہر شخص کو سلام کرنا خواہ اس کو پہچانو یا نہ پہچانو۔ (بخاری ومسلم) اسی طرح فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’جو شخص مؤمن کی کوئی دنیاوی مشکل دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کی سختیوں میں سے اس پر سے ایک سختی دور کرے گا۔ اور جو شخص کسی تنگ دست پر سہولت کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس پر سہولت کرے گا۔ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد میں رہتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
اِنسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام، وقار اور مساوات پر مبنی ہے۔ قرآن حکیم کی رو سے اللہ رب العزت نے نوعِ انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا کی ہے۔ قرآن حکیم میں شرف انسانیت وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ تخلیق آدم کے وقت ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت آدم ں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس طرح نسل آدم کو تمام مخلوق پر فضیلت عطا کی گئی۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:”اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا فضیلت دے کر برتر بنا دیاo“قرآن حکیم کے الفاظ
”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے سب کو تمہارے ہی کام لگا دیا ہے۔“اور ارشاد کہ”ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی ) ساخت پر بنایا ہےo“بیان کرتے ہیں کہ انسان کو شرف و تکریم سے نوازا گیا ہے اور اس کو انعامات و نوازشات الٰہیہ کے باعث اعلیٰ مرتبہ کمال تفویض کیا گیا ہے۔ مساوات انسانی کو اسلام نے بے حد اہمیت دی ہے۔ اس حوالے سے کوئی اور مذہب اور نظام اقدار اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ قرآن حکیم نے بنی نوع انسان کی مساوات کی اساس بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:”اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی، پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا، پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اﷲ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اور قرابتوں (میں بھی تقویٰ اختیار کرو)، بے شک اﷲ تم پر نگہبان ہےo“ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:”اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہارے طبقات اور قبیلے بنا دیئے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو بے شک اللہ کے نزدیک تو تم سب میں عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو، بے شک اللہ سب کچھ جانتا باخبر ہےo“حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ حجۃ الوداع میں واضح الفاظ میں اعلان فرمایا:
536)”اے لوگو! خبردار ہوجاؤ کہ تمہارا رب ایک ہے اور بیشک تمہارا باپ (آدم علیہ السلام) ایک ہے۔ کسی عرب کو غیر عرب پر اور کسی غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے۔“حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزید ارشاد فرمایا:”تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔“اس طرح اسلام نے تمام قسم کے امتیازات اور ذات پات، نسل، رنگ، جنس، زبان، حسب و نسب اور مال و دولت پر مبنی تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ہم پلہ قرار دیا خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، سفید ہوں یا سیاہ، مشرق میں ہوں یا مغرب میں، مرد ہوں یا عورت اور چاہے وہ کسی بھی لسانی یا جغرافیائی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ انسانی مساوات کی اس سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں، نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے ہر سال مکۃ المکرمہ میں ایک ہی لباس میں ملبوس حج ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
احترامِ آدمیت اور نوعِ بشر کی برابری کے نظام کی بنیاد ڈالنے کے بعد اسلام نے اگلے قدم کے طور پر عالم انسانیت کو مذہبی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی شعبہ ہائے زندگی میں بے شمار حقوق عطا کئے۔ انسانی حقوق اور آزادیوں کے بارے میں اسلام کا تصور آفاقی اور یکساں نوعیت کا ہے جو زماں و مکاں کی تاریخی اور جغرافیائی حدود سے ماورا ہے۔ اسلام میں حقوق انسانی کا منشور اُس اللہ کا عطا کردہ ہے جو تمام کائنات کا خدا ہے اور اس نے یہ تصور اپنے آخری پیغام میں اپنے آخری نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے دیا ہے۔ اسلام کے تفویض کردہ حقوق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام کے طور پر عطا کئے گئے ہیں اور ان کے حصول میں انسانوں کی محنت اور کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں۔ دنیا کے قانون سازوں کی طرف سے دیئے گئے حقوق کے برعکس یہ حقوق مستقل بالذات، مقدس اور ناقابل تنسیخ ہیں۔ ان کے پیچھے الٰہی منشا اور ارادہ کار فرما ہے اس لئے انہیں کسی عذر کی بناء پر تبدیل، ترمیم یا معطل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک حقیقی اسلامی ریاست میں ان حقوق سے تمام شہری مستفیض ہوسکیں گے اور کوئی ریاست یا فرد واحد ان کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ قرآن و سنت کی طرف سے عطا کردہ بنیادی حقوق کو معطل یا کالعدم قرار دے سکتا ہے۔