جنرل نیوز

مسلمان قابل احترام ہے۔خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

مسلمان قابل احترام ہے۔خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

حیدرآباد 21جون(پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ کردار مسلم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سکھایا کہ اگر کوئی شخص سزا یافتہ بھی ہوگیا ہے پھر بھی اس کی عزت نفس کا پاس کرو۔ اس کو بھی کسی قسم کی گالی نہ دو اور اس کو برا بھلا نہ کہو۔ کہیں ایسا نہ ہو تمہارے اس طرح کہنے سے وہ برائی پر ثابت قدم ہوجائے اور وہ اپنی توبہ و استغفار سے پھر جائے۔ تمہارے اس طرح کہنے سے اس کی عزت نفس مجروح ہوگی۔ درست ہے وہ گنہگار ہے مگر مسلمان ہے اور مسلمان قابل احترام ہے۔ وہ انسان ہے لہذا قابل تکریم ہے۔ باری تعالیٰ ہمیں ان قرآنی اور نبوی تصورات کو اپنی زندگی میں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مسلمان کون ہے؟ کردارِ مسلم کیا ہونا چاہئے؟ کیا آج ہم سیرت و کردار میں مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات جاننے کے لئے ہمیں کردارِ مسلم کی بنیادی علامات اور مسلمانوں کے اہم تشخصات کو جاننا ہوگا۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ’’مسلمان‘‘ کی علامت کا ذکر کچھ یوں فرمایا:’’ہاں، جس نے اپنا چہرہ اﷲ کے لیے جھکا دیا (یعنی خود کو اﷲ کے سپرد کر دیا) اور وہ صاحبِ اِحسان ہوگیا تو اس کے لیے اس کا اجر اس کے رب کے ہاں ہے اور ایسے لوگوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اورنہ وہ رنجیدہ ہوں گے‘‘۔(البقرة، 2: 112)یہ آیت کریمہ واضح کرتی ہے کہ مسلمان وہ ہے جو خود کو اللہ کے حضور جھکادے۔ اللہ کے حضور جھکانا یہ ہے کہ انسان کے وجود سے صادر ہونے والے ہر فعل، قول، خلق و عادت، رویہ و طریقہ، طرز عمل اور طرز گفتگو میں اللہ کا رنگ نظر آئے، یعنی انسان اخلاق الہٰیہ اور اخلاق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متصف نظر آئے۔اسی لئے باری تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسی ہستیوں سے متعارف کراتا ہے جنہوں نے خود کو اس کے حضور، مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلّٰه کے مصداق جھکایا اور مسلمان کا اعزاز پانے والوں میں سے ہوگئے۔ اس وجود مسلم کا تعارف کراتے ہوئے سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا:’’ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی وہ ہر باطل سے جدا رہنے والے (سچے) مسلمان تھے‘‘۔

باری تعالیٰ اس آیت کریمہ میں ایک مسلمان کا تعارف کروا رہا ہے کہ مسلمان ہمیشہ باطل سے جدا اور حق سے وابستہ ہونے والا ہوتاہے۔۔۔ مسلمان وہ ہے جو شرک کو چھوڑتا ہے اور توحید پر خود کو قائم کرتا ہے۔۔۔ مسلمان وہ ہے جو جھوٹ سے بیزار ہوتا ہے اور سچ کا دلدادہ ہوتا ہے۔۔۔ مسلمان وہ ہے جو پیکر اطاعت ہوتا ہے۔۔۔ اس کا وجود شر نہیں بلکہ خیر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے حضور جھک جانے کے باعث اس کے وجود کا نام ہم نے قرآن میں مسلمان رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اس (اﷲ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی ‘‘۔

سورہ حم السجدہ میں ایک مسلمان کا سب سے بڑا تعارف کراتے ہوئے قرآن بیان کرتا ہے کہ ایک مسلمان کون ہے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے جو اﷲ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے بے شک میں (اﷲل اور رسول a کے) فرمانبرداروں میں سے ہوں‘‘۔(حم السجدة، 41: 33)اس آیت کریمہ نے قول احسن اور عمل احسن کا نام کردارِ مسلم بتایا ہے۔ گویا جس ذات اور شخصیت میں قول احسن کی بہاریں ہیں اور جس وجود میں عمل احسن کے جلوے ہیں یقینا یہی وہ وجود ہے جو اپنا تعارف تحدیث نعمت کے طور اننی من المسلمین سے کراتا ہے۔ یعنی میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وفادار اور فرمانبردار ہوں۔۔۔ میری شناخت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت گزاری ہے۔۔۔ میں مسلمان اس لئے ہوں کہ میں اللہ کے حضور عبادت گزار ہوں اور میں مسلمان اس لئے ہوں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا عملدار ہوں اور ان کی سیرت و کردار کا وفا شعار ہوں۔

عربی لغت میں مسلمان کا معنی کیا بیان کیا گیا ہے؟ آیئے اس پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں:

’’مسلمان وہ ہے جو سراپا اطاعت ہے‘‘۔

(ابن منظور،لسان العرب، ماده مسلم ج12، ص293)یعنی جس کا وجود اطاعت الہٰی اور اطاعت رسول سے عبارت ہے۔ اس کے وجود میں اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کا رنگ نظر آتا ہے۔’’مسلمان وہ ہے جس نے خود کو اسلام میں ڈھال لیا ہے‘‘۔(ايضاً)

یعنی جس کا وجود چلتا پھرتا اسلام ہے۔ اسلام کی تعلیمات کا عملی اظہار وجود مسلم سے ہوتا ہے۔’’مسلمان وہ ہے جو تعلیمات اسلام پر ایمان رکھتا ہے‘‘۔(ايضاً)یعنی اس کو یقین حاصل ہے کہ اسلام کا ہر عمل اور ہر امر و نہی اس کے نفع کے لئے ہے۔’’مسلمان وہ ہے جو اللہ کے حکم کے سامنے جھک جائے‘‘۔(ايضاً)یعنی مسلمان وہ ہے جو اللہ کے حکم کو اپنا قول و فعل اور اخلاق و کردار بنائے۔ جو اپنے نفس امارہ کی خواہش سے اٹھنے والے حکم کو ترک کرے اور اس کے بجائے اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردے۔

’’مسلمان وہ ہے جو عبادت کو اللہ ہی کے لئے خالص کرلے‘‘۔ايضاً)

یعنی مسلمان وہ ہے جو ایاک نعبد کا پیکر بن جائے، جو صرف اور صرف اللہ ہی کی عبادت کرے۔ اس کے وجود سے عبادتِ غیر کی ہر صورت کا خاتمہ ہوجائے۔ عبادت میں اس بندے کا اخلاص بڑھتے بڑھتے اس کو ایسا کردے کہ اس کا ہر کام اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہو۔

 

 

 

لفظ اسلام کے مد مقابل لفظ کفر بولا جاتا ہے جس کا معنی چھپانا اور ڈھانپنا ہے۔

 

کافر کو کافر اس لئے کہتے ہیں کہ وہ ایمان کو دل میں چھپالیتا ہے اور زبان و دل سے اس کا اظہار نہیں کرتا۔ اسی معنی کو ائمہ عقیدہ امام ابوالحسن اشعری، ابو منصور ماتریدی اور علامہ تفتازانی نے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

 

 

 

آیئے اب ہم کردار مسلم کی کچھ علامات اور نشانیاں ایک مسلمان کے وجود میں تلاش کریں۔ ان علامات اور نشانیوں کا تعین ہم اپنے اپنے تصورات اور نظریات سے نہیں کرتے بلکہ ہم آقا علیہ السلام سے اس بارے رہنمائی لیتے ہیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کی نگاہ میں ایک مسلمان کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے متعدد فرامین میں ایک مسلم کردار کی کچھ علامات بیان کی ہیں۔ آیئے! ان احادیث مبارکہ سے علاماتِ کردارِ مسلم کا مطالعہ کرتے ہیں:

 

زبان سے تمام لوگ محفوظ رہیں

 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

 

 

’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔

 

(بخاری، الصحيح، باب من سلم المسلمون، رقم11)

 

اس حدیث مبارکہ کا پہلا حصہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کی زبان دوسروں کو تکلیف و اذیت نہ دے۔ اس کی زبان پر کسی کی تحقیر نہ ہو، وہ زبان فحش سے پاک ہو، وہ زبان سب و شتم سے دور ہو، وہ زبان گالی گلوچ سے محفوظ ہو، وہ زبان طعن و تشنیع سے ماوراء ہو۔ اس لئے کہ یہ زبان ہی لوگوں کے درمیان محبت اور یہی لوگوں کے درمیان نفرت پیدا کرتی ہے۔ یہ زبان جوڑتی بھی ہے اور توڑتی بھی ہے۔ یہ زبان دوست بھی بناتی ہے اور دشمن بھی بناتی ہے۔ یہ زبان ہی چھری، کانٹے، چاقو اور تلوار سے بھی زیادہ گہرا زخم لگاتی ہے۔ اسی لئے کسی عربی شاعر نے زبان کی اس خاصیت کا اظہار یوں کیا:

 

جراحت الاسنان لها التيام

ولا يلتام من جرح باللسان

 

’’جو زخم چھری و تلوار سے لگایا جائے وہ بھر جاتا ہے اورجو زخم زبان سے لگایا جائے وہ نہیں بھرتا‘‘۔

 

آج ہماری معاشرتی زندگی، کاروباری زندگی، گھریلو زندگی، دفتری زندگی میں عدم سکون، پریشانی و اضطراب اور نااتفاقی و بے چینی کا سب سے بڑا سبب ہماری نوک دار زبان ہے جو چھری اور تلوار سے بھی زیادہ تیز ہے۔ جو ایسا کاٹتی ہے کہ کسی کو دوستی سے ہی کاٹ دیتی ہے، کسی کو رشتے ہی سے فارغ کردیتی ہے، کسی کو دیرینہ تعلق سے محروم کردیتی ہے، کسی کی لازوال وفائوں کو ایک لمحے میں خاکستر کردیتی ہے۔ یہ زبان بسانے پر آئے تو وفائوں کے گلستان آباد کرتی ہے اور یہ زبان اجاڑنے پر آئے تو پھول چہروں کو مرجھا اور جھلسا دیتی ہے۔ اس زبان کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 

’’جو شخص مجھے اپنی زبان کی ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں‘‘۔

 

اس زبان کے شر سے ہم نے دوسرے مسلمانوں کو محفوظ کرنا ہے تب ہی ہماری مسلمانی مسلّم ہوگی۔

 

صرف مسلمان کا مسلمان ہی کا محافظ ہونا نہیں بلکہ مسلمان ہر ایک انسان کا محافظ ہونا اسلام کی علامت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے:

متعلقہ خبریں

Back to top button