حضور ﷺ کی محبت کے حصول کا ذریعہ محبتِ اہلِ بیت ہے۔مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

حضور ﷺ کی محبت کے حصول کا ذریعہ محبتِ اہلِ بیت ہے۔مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد 23جون (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ محرم الحرام کے ایام ہمیں ان عظیم المرتبت ہستیوں کی یاد دلواتے ہیں جنھوں نے دین اسلام کی بقا کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ بلاخوف وخطر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کردیا۔ یہ عظیم المرتبت ہستیاں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کے وہ نفوسِ مقدسہ ہیں کہ جن سے محبت ومؤدت کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ سے محبت کرو، اِس وجہ سے کہ اُس نے تمہیں بے شمار نعمتوں سے مالامال فرما دیا اور وہ تم پر شفقت فرماتا ہے اور تم پر بے حساب رحمت فرماتا ہے۔ مجھ سے محبت کرو تاکہ اللہ تم سے محبت کرے۔ پھر فرمایا: میری اہل بیت سے محبت اِس لیے کرو تاکہ میں تم سے محبت کروں۔پس حضور ﷺ کی محبت کے حصول کا ذریعہ محبتِ اہلِ بیت ہے۔ آقا ﷺ نے اہلِ بیت سے محبت و مودت کی حد درجہ تلقین فرمائی۔ محبت اہل بیت عمر بھر رہنی چاہئے، اس لیے کہ یہ آقا ﷺ کی محبت ہی کا حصہ ہے۔ اہل بیت کی محبت، عترت و ذریت پاک کی محبت بالخصوص حسنین کریمین کی محبت نہ صرف ہمارے ایمان کاحصہ ہے بلکہ عینِ ایمان ہے۔ امام شافعی نے فرمایا:ـ’’اے اہل بیت رسول تمہاری محبت اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرض کردی ہے اور اس کا حکم قرآن میں نازل ہوا ہے۔‘‘’’اے اہل بیت تمہاری عظمت اور تمہاری شان اور تمہاری مکانت کی بلندی کے لئے اتنی دلیل کافی ہے کہ جو تم پر درود نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘امام عالی مقام امام حسین رضہ اور اہلِ بیت اطہار رضہ کے سے محبت کرنا حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ، سیدہ کائنات کی توجہات اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے درکی خیرات کے حصول کاذریعہ ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کی قسمیں کھائیں۔ یہ امر کئی لوگو ں کے لیے حیرت کا باعث ہوگا مگر آیئے اس علمی و روحانی نکتہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے اس آیت کا ایک معنی بیان کیا ہے، جسے حضرت عکرمہ، حضرت مجاہد، حضرت عبداللہ بن جبیر، حضرت سدی الکبیرl نے نقل کیا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسی معنی کی رو سے اس آیت کا درج ذیل ترجمہ کیا ہے:’’پس میں ان جگہوں کی قسم کھاتا ہے جہاں جہاں قرآن مجید کے مختلف حصے (رسول عربی ﷺ ) پر اترتے ہیں۔‘‘ پھر فرمایا:’’اور اگر تم سمجھو تو بے شک یہ بہت بڑی قَسم ہے۔ بے شک یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے (جو بڑی عظمت والے رسول ﷺ پر اتر رہا ہے)۔ (اس سے پہلے یہ) لوحِ محفوظ میں (لکھا ہوا) ہے۔ اس کو پاک (طہارت والے) لوگوں کے سوا کوئی نہیں چُھوئے گا۔‘‘اِن آیات مبارکہ میں اللہ رب العزت نے دو اہم موضوعات کی طرف اشارہ کیا ہے:
1۔ اللہ رب العزت قسم کھا رہا ہے اور اس قسم کو ان مقامات سے منسوب کررہا ہے جہاں جہاں قرآن مجید کے مختلف حصے نازل ہوتے رہے ہیں۔
2۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن مجید جسے اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ میں اپنے انوار و تجلیات میں سمو کر رکھا تھا اور جسے اپنے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل کیا ہے، اس قرآن کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ لَّا یَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ کہ پاکیزہ، طہارت والے اور آلودگی سے پاک لوگ ہی اسے چھو سکتے ہیں۔غور طلب مقام یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں قرآن مجید کے نازل ہونے والے مقامات کی قسم کھائی ہے کہ میں ان مقامات کی قسم کھاتا ہوں، جہاں جہاں قرآن اترتا ہے تو وہ ہستیاں جن سے قرآن جدا ہی نہ ہو، ان کے مقام کا عالم کیا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس وقت ذکرِ اہلِ بیتؓ پر مشتمل آیات حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہورہی تھیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ اُن مقامات کی قسم کے ساتھ ساتھ ان آیات کے نزول کا سبب بننے والے اہلِ بیتؓ کی قسم بھی کھارہا تھا۔1۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
’’اور (اپنا) کھانا اللہ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں۔‘‘
اس آیت کے نزول کا سبب تمام مفسرین کے نزدیک اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام ہیں کہ ایک دفعہ جب حسنین کریمینd بیمار ہوگئے تو ان کی صحتیابی پر تین روزوں کی نذر مانی۔ جب حسنین کریمین صحت یاب ہوگئے تو حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت فاطمہؓ اور سیدہ فضہؓ نے روزہ رکھا۔ پہلے دن وقتِ افطار کسی مسکین نے بھوکے ہونے کی صدا دی تو اہلِ بیت علیہم السلام کے مقدس گھرانے کے مقدس نفوس نے اپنی افطاری کا سامان اس مسکین کو دے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کرلیا۔ دوسرے دن وقتِ افطار کسی یتیم نے بھوکے ہونے کا اظہار کیا تو افطاری کی چیزیں اُسے عطا کردیں اور خود پانی سے افطار کرلیا۔ تیسرے دن بھی اسی طرح ہوا کہ ایک قیدی نے آواز دی کہ بھوکا ہوں، ان مقدس ہستیوںنے تیسرے دن کی بھی افطاری کا سامان اس قیدی کو دے دیا اور خود پانی سے افطار کرلیا۔ اگلے دن جب حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کے اس ایثار کی قبولیت کے اظہار پر مذکورہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔
اس آیت کا نزول اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کے لیے ہورہا ہے۔ جب اللہ ہر اُس مقام کی قسم کھاتا ہے جہاں قرآن نازل ہوا تو اب کیسے ممکن ہے کہ مذکورہ آیت کے مقامِ نزول کی قسم تو اللہ کھائے اور وہ اہل بیت جن کے سبب اور جن کے لیے یہ آیت نازل ہورہی ہو، اُن کو اس قسم سے خارج کردے۔ پس جب مقام کی قسم کھائی تو اُس آیت کے نزول کا سبب بننے والے حضرت علی المرتضیؓ، سیدہ کائناتؓ اور حسنین کریمینؓ کی قسم بھی اس مقام کی قسم میں شامل ہوگئی۔
2۔ اسی طرح آیتِ مباہلہ پر غور کریں کہ جب اللہ نے آیت کریمہ نازل کی: