امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کی طرز حکمرانی منفرد اور ممتاز ،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد سے خطاب

حیدرآباد 27جون (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آج وہ ابنے خطاب کرتےہوئے بتلایا کہ تاریخ اسلام میں نظامِ حکومت کے باب میں عہدِ رسالتمآب ﷺ کے بعد جو عہدِ حکومت تمام زمانوں میں دنیا بھر کے حکمرانوں کے لیے طرزِ حکمرانی کے اعتبار سے چمکتا اور دمکتا رہا ہے اور جس کے طرزِ حکومت کو آج بھی ہر حکمرانِ وقت اپنے لیے ایک مثال سمجھتا ہے، وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عہد ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں اسلام کے نظامِ حکومت کی ایک منظم، مربوط اور فعال داغ بیل ڈالی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی اعلیٰ طرزِ حکمرانی کے ذریعے ہی اپنی سلطنت کو اس حد تک وسعت دی کہ قیصر و کسریٰ کی وسیع سلطنتیں بھی اسلامی ریاست کا حصہ بن گئیں۔ ذیل میں آپ رضی اللہ عنہ کے طرزِ حکمرانی کے بنیادی خدوخال کی وضاحت کی جاتی ہے:دنیاکی تاریخ بادشاہوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہے۔ ایک سے ایک قابل اور ایک سے بڑھ کر ایک نااہل ترین حکمرانوں نے اس دنیاکی تاریخ میں اپنے نام کھرچے، لیکن گنتی کے چند حکمران گزرے ہیں جو بذاتِ خود قانون ساز تھے اور انہوں نے صرف حکمرانی ہی نہیں کی، بلکہ انسانیت کو جہاں قانون سازی کے طریقے بتائے، وہاںقوانینِ حکمرانی و جہانبانی بھی بنائے۔ ایسے حکمران انسانیت کااثاثہ تھے۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی اُنہی حکمرانوں میں سے ہیں، جنہوں نے عالم انسانیت کو وحیِ الٰہی کے مطابق قوانین بناکر دیئے اور قانون سازی کے طریقے بھی تعلیم کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ:’’ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتاتووہ عمر ہوتا۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو سچ کر دکھایا اور حدوداﷲسے لے کر انتظامِ سلطنت تک میں اس طرح کی قانون سازی کی کہ آج اکیسویں صدی کی دہلیزپر بھی سائنس اور ٹیکنالوجی اور علوم و معارف کی دنیاؤں میں آپؓ کے بنائے ہوئے قوانین ’’عمرلا (Umar Law)‘‘ کے ہی نام سے رائج و نافذ ہیں اور عالمِ انسانیت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کافیض عام پہنچ رہا ہے۔دنیا کے دیگر بادشاہوں نے جوکچھ بھی قانون بنائے وہ اپنی ذات، نسل، خاندان یا اپنی قوم و ملک کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بنائے ہوئے قوانین میں خالصتاًشریعتِ اسلامیہ کے فراہم کیے ہوئے اصول و مبادی شامل تھے۔ باقی بادشاہوں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قانون سازی میں ایک اور بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ باقی بادشاہوں کے قوانین ایک دفعہ بننے کے بعد ان بادشاہوں کی اَنا کا مسئلہ بن جاتے، اور کوئی بادشاہ بھی ان قوانین میں تبدیلی کو اپنی اَناوخودی کی تذلیل سمجھتا، جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوجب بھی اپنی قانون سازی کے برخلاف کوئی نص میسر آتی توآپ فوراً رجوع کرلیتے اور کبھی بھی اپنی اَناکے خول میں گرفتار نہ ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک تمام اسلامی مکاتبِ فکر میں آپ کے فیصلوں کو قانونی نظیر کی حیثیت حاصل رہی ہےحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا طرزِ حکمرانی شخصی نہیں بلکہ جمہوری تھا۔ حکمرانی کا جمہوری انداز ہی تعلیماتِ اسلام کے موافق ہے۔ شخصی حکمرانی میں عوام کی رائے شامل نہیں ہوتی ہے اور ایک شخص ہی تمام تر معاملات میں کل اختیارات اور تمام قضایا اور فیصلہ جات کا مالک ہوتا ہے۔ جبکہ جمہوری حکمرانی میں ہر ہر مسئلے پر عوام کی رائے پر فیصلہ کیا جاتا ہے اور حکمرانوں کے ذاتی اختیارات نہیں رہتے بلکہ اجتماعی رائے کے مطابق حکومت کی جاتی ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام فیصلہ جات کو جمہوری انداز میں کیا ہے اور جب بھی کسی مسئلے کے لیے کسی رائے کی ضرورت ہوتی تھی تو آپ رضی اللہ عنہ ’’الصلوۃ جامع‘‘ کے الفاظ کے ذریعے ایک اعلان کراتے تھے جس کے مطابق لوگ مسجد نبوی میں جمع ہوجاتے تھے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ دو رکعت نماز نفل ادا کرتے تھے اور اس کے بعد اپنا مدعا اور مقصد لوگوں کے سامنے بیان کرتے۔ آپ رضی اللہ عنہ معمولی اور روزمرہ کے فیصلے اسی مجلس میں کیا کرتے تھے۔ اس کی درج ذیل مثالیں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں:
1۔ جب عراق اور شام فتح ہوئے تو بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مشورہ دیا کہ تمام مفتوحہ علاقے فوج کو بطورِ جاگیر دے دیئے جائیں اور اس حوالے سے بہت بڑی مجلس منعقد ہوئی۔ مہاجرین اور انصار میں سے دس دس بڑے سردار مشورے کے لیے بلائے گئے۔ ان سے مشاورت کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’میں بھی تم میں سے ایک فرد ہوں اور میں نہیں چاہتا کوئی صرف میری وجہ سے میری رائے کی پیروی کرے۔‘‘
2۔ اسی طرح 21 ہجری میں نہاوند کے معرکے کے لیے یہ مسئلہ درپیش ہوا کہ خلیفۂ وقت بھی بنفسِ نفیس اس معرکے میں شریک ہوں یا نہ ہوں؟ اس مسئلے پر مجلس شوریٰ منعقد ہوئی۔ حضرت عثمان غنیؓ، حضرت طلحہ بن عبداللہؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے باری باری اپنی رائے دی کہ آپ کا خود جنگ پر جانا مناسب نہیں۔ پھر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر اس موقف کی تائید میں تقریر کی۔ کثرت رائے سے یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ موقع جنگ پر نہ جائیں۔ (کنزالعمال، مصنف ابن ابی شیبہ، 3: 139)
3۔ اسی طرح فوج کی تنخواہوں، عمال کے تقر راور غیر قوموں کو تجارت کی آزادی اور ان سے محصول کی وصولی کے لیے عام فیصلہ جات بھی اسی طرح مجلس شوریٰ کے ذریعے کیے گئے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اندازِ حکمرانی سراسر جمہوری تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کی ساری بنیاد ہی جمہوریت پر تھی اور یہی جمہوریت خلافت کی اصطلاح میں مشاورت تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اسلامی طرز حکمرانی اور خلافت کی اساس بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لاخلافۃ الا عن مشورۃ.
(مصنف ابن ابی شیبہ، 3: 139)
’’خلافت کا طرز حکومت صرف اور صرف مشاورت پر منحصر ہے۔‘‘
مجلس شوریٰ کے علاوہ ایک مجلس حکومتی معاملات کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لینے کے لیے مسجد نبوی ﷺ میں منعقد ہوتی تھی۔ اس میں اہل الرائے صحابہ کرامؓ شریک ہوتے تھے اور نظامِ خلافت کے ماتحت علاقوں سے آنے والی خبروں کا جائزہ لیا جاتا تھا اور اس حوالے سے اجتماعی رائے پر مبنی اقدامات اٹھائے جاتے تھے۔انھوں نے بتلایا کہ آپ کے اسلام کے لیے خود نبی کریم ﷺ نے دعامانگی ،آپ کے قبول اسلام کے ذریعہ کمزور مسلمانوں کو ایک حوصلہ ملااور خود رسول ﷺ کو ایک بے مثال رفیق وہمدردنصیب ہوا، بلاشبہ سیدنا عمر فاروقؓ کی ذاتِ گرامی سے اسلام کو اور مسلمانوں کو بہت کچھ فیض پہونچا،اور آپؓ کی زندگی اسلام لانے کے بعد پوری اسلام کے لیے وقف تھی،آپ نے بہت کچھ اصلاحات دین کے مختلف شعبوںمیں فرمائی ،اور ایک ایسا نظام دنیا کے سامنے پیش کیا کہ دنیا والے اس کی نہ صرف داد دینے پر مجبور ہوئے بلکہ اس کو اختیار کر کے اپنے اپنے ملکوں اور ریاستوںکے نظام کو بھی درست کیا۔اور بعض تو یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر دنیا کا نظام سنبھالنا ہو تو ابو بکر و عمر کو اپنا آئیڈیل بنایا جائے۔ ورع و تقوی ،خلو ص و للہیت ،سادگی و بے نفسی، انکساری اور عاجزی بے شمار خوبیوں سے اللہ تعالی نے نوازاتھا ،دنیا کے نظام کو چلانے اور انسانوں کی بہتر اندا ز میں خدمت کرنے کا خاص ملکہ عطافرمایا تھا ،جن کے ذریعہ اسلام دنیا کے دور دراز علاقوں میں پھیلایا ،اور اطراف عالم تک پہنچا ،جن کی عظمت اور شوکت کا رعب دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو تھا اور بڑی بڑی سلطنتیں جن کے نام سے تھراتی تھیں ،ایسے عظیم انسان کے دل میں اللہ تعالی نے انسانیت کی خدمت ،رعایا کی خبر گیری ،مخلوق خدا کے احوال سے واقفیت کا عجیب جذبہ رکھا تھا۔راتوں کی تنہائیوں میں لوگوں کی ضروریات کو پوری کرنے اور ان کے حال سے آگاہ ہونے کے لیے گشت کرنا ،ہر ضرورت مند کے کام آنا اور ان کی خدمت انجام دینے کی کوشش میں لگے رہنا آپ کا امتیازتھا، آپ کی مبارک زندگی کے ان گنت پہلو اور گوشے ہیں اور ہر پہلو انسانیت کے لیے سبق اور پیغام لیے ہوئے ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس رفیقِ خاص کے بہت سے فضائل بیان کیے اور ان کی عظمتوں کو اجاگر کیا۔ذیل میں ہم صرف ان کی بے مثال حکمرانی سے متعلق چیزوں کو پیش کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں ا ن کی سادگی اور انکساری کے پہلو کو بھی بیان کرتے ہیں تاکہ اندازہ ہو کہ جس کو اللہ تعالی نے ایک بڑی سلطنت کا فرماں روا،اور منصب ِخلافت کا مسند نشیں بنایا تھا لیکن وہ ان تمام کے باوجود مخلو قِ خدا کی خدمت میں کس طرح اپنے آپ کو مٹادیا تھا اور لوگوں کی بھلائی اور فائدہ کے لیے کن کن چیزوں کو بروئے کار لایا تھا ،بقول مولانا شاہ معین الدین ندویؒ کہ :فاروق اعظمؓ کی زندگی کا حقیقی نصب العین رفاہ عام اور بہبودی بنی نوع انسان تھا۔
سیدنا عمر ؓ نے اپنے دور خلافت میں عد ل و انصاف کی بہترین مثال قائم فرمائی ،اور عادل حکمران بن کر تعلیمات ِعدل کو دنیا میں پھیلادیا،مساوات و برابری ،اور حقوق کی ادائیگی کا حد درجہ اہتمام فرمایا۔ ابن عباسؒسے مروی ہے کہ : تم عمرؓ کا ذکر کیا کرو،کیوں کہ جب تم عمر کو یاد کرو گے تو عدل و انصاف یاد آئے گا اور عدل وانصاف کی وجہ سے تم اللہ کو یاد کروگے۔( اسدالغابہ :۴/ ۱۵۳ دار الکتب العلمیہ بیروت) ایک مرتبہ قیصر نے اپنا ایک قاصد حضرت عمر ؓ کے پاس بھیجا تاکہ احوال کا جائزہ لے اور نظام و انتظام کا مشاہد ہ کرے ،جب وہ مدینہ منورہ آیا تو اس کو کوئی شاہی محل نظر نہیں آیا ،اس نے لوگوں سے معلوم کیا کہ تمہارا بادشاہ کہاں ہے ؟صحابہ نے کہا کہ ہمارا کوئی بادشا ہ نہیں ہے ،البتہ ہمارے امیرہیں جو اس وقت مدینہ سے باہر گئے ہوئے ہیں ،قاصد تلاش کرتے ہوئے اس مقام پر آگیا جہاں امیر المؤمنین سیدنا عمر ؓدھوپ کی گرمی میں سخت ریت پر اپنے درہ کو تکیہ بنائے آرام فرمارہے تھے، پسینہ آپ کی پیشا نی سے ٹپک رہا تھا ،جب اس نے دیکھا تو سیدنا عمر ؓکا جاہ وجلال او ررعب سے وہ گھبراگیا اس نے کہاکہ ؛اے عمر ! واقعی تو عادل حکمران ہے ،اسی لیے تو آرام سے بغیر کسی پہرہ اور حفاظتی انتظامات کے تنہا خوف اور ڈر کے بغیر آرام کررہا ہے،اور ہمارے بادشاہ ظلم کرتے ہیں اس لیے خوف و ہراس ان پر چھایا رہتا ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا دین حق ہے ،میں اگر قاصد بن کر نہیں آتا تو مسلمان ہوجا تا ،لیکن میں جاکر اسلام قبول کروں گا۔(