ریاستی محکمہ تعلیم کی لاپرواہی سے اقلیتی اسکول شدید متاثر : ایڈووکیٹ ایم ایس فاروق

ریاستی محکمہ تعلیم کی لاپرواہی سے اقلیتی اسکول شدید متاثر : ایڈووکیٹ ایم ایس فاروق
مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی اور کانفیڈریشن آف مائناریٹی انسٹی ٹیوشنس کا مذمتی بیان
حیدرآباد: آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی اور کانفیڈریشن آف مائناریٹی انسٹی ٹیوشنس نے تلنگانہ ریاستی محکمہ تعلیم کی جانب سے نئے اسکولوں کو اجازت دینے اور پرانے،عرصہ دراز سے کام کرنے والے اسکولوں کی منظوری کے معاملے میں کی جانے والی بے ترتیبی اور غیر ذمے دارانہ رویے کی سخت مذمت کی ہے
۔ایک مشترکہ پریس نوٹ میں دونوں تنظیموں نے کہا کہ حکومت کی اس ہنگامی اور غیر سائنسی پالیسی کی وجہ سے دہائیوں سے قائم اسکولوں کو شدید مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور ان کے وجود کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔مذمتی بیان میں کہا گیا ہے کہ محکمہ تعلیم،نئے اسکولوں کو منظوری دیتے وقت نہ تو علاقے میں پہلے سے موجود تعلیمی اداروں کی موجودگی کا جائزہ لیتا ہے، اور نہ ہی بنیادی ڈھانچے (انفراسٹرکچر) کی جانچ کرتا ہے۔
اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ شہر و مضافات میں غیر تسلیم شدہ اسکولوں کی بھرمار اور ان کے غیر قانونی طور پر اعلیٰ درجات تک جماعتیں چلانے پر محکمہ مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے، جو اس کی مجرمانہ غفلت یا ممکنہ ملی بھگت کوظاہر کررہا ہے۔پریس نوٹ میں مزید کہا گیا کہ باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ اور قواعد و ضوابط کی پابندی کرنے والے اسکولس جو اپنی بقاء کیلئے جدوجہد کررہے ہیں، وہیں غیر قانونی اسکولس آزادانہ طریقے سے فروغ پا رہے ہیں۔
یہ تعلیم کے میدان میں ایک غیر مساوی اور غیر منصفانہ صورت حال پیدا کر رہا ہے۔دونوں اداروں نے ریاستی حکومت سے درج ذیل فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے:1.غیر قانونی اور غیر منظور شدہ اسکولوں کے خلاف کارروائی کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی جائے۔2.تمام تسلیم شدہ اسکولوں کی فہرست منڈل سطح پر معروف اخبارات میں شائع کی جائے، تاکہ عوام کو مستند اداروں کی صحیح معلومات حاصل ہو سکیں
۔آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی اور کانفیڈریشن آف مائناریٹی انسٹی ٹیوشنس نے آخر میں حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سنجیدہ مسئلے پر فوری توجہ دے اور حکومت سے منظوری یافتہ اسکولوں کے مفادات کے تحفظ کویقینی بنائے تاکہ تعلیمی نظام کو غیر قانونی عناصر سے پاک کیا جا سکے۔