کومی کے زیر اہتمام ایس ایس سی ٹاپرس و بیسٹ اردو ٹیچرس ایوارڈ تقریب کا اردومسکن میں انعقاد

کومی کے زیر اہتمام ایس ایس سی ٹاپرس و بیسٹ اردو ٹیچرس ایوارڈ تقریب کا اردومسکن میں انعقاد
*ایڈوکیٹ ایم ایس فاروق،طارق انصاری،ایس اے ھدی اوردیگرکاخطاب*
کانفیڈریشن آف مائناریٹی انسٹی ٹیوشنس (COMI) کے زیرِ اہتمام اردومسکن،خلوت میں سال 2025 کے ایس ایس سی ٹاپرس اور وبیسٹ اردوٹیچرس کو ایوارڈ پیش کئے گئے۔ اس موقع پر طلبہ کے مستقبل کیلئے رہنمائی کرتے ہوئے تعلیم، اقدار، زبان، خواتین کی خودمختاری اور کیریئر رہنمائی جیسے اہم موضوعات پر مقررین نے روشنی ڈالی۔
ایڈوکیٹ ایم ایس فاروق(صدر کومی) نے اپنے صدارتی خطاب میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ او رایوارڈ پانے والے اساتذہ کومبارک باد پیش کی۔ انہوں نے طلبہ کو تلقین کی کہ وہ اپنی فطری دلچسپیوں کو پہچانیں اور ایسے کیریئر کا انتخاب کریں جو ان کے شوق اور جذبے سے ہم آہنگ ہو۔ والدین سے گزارش کی کہ وہ بچوں پر کسی مخصوص شعبے کا بوجھ نہ ڈالیں بلکہ ان کی شخصیت، اقدار، اور رجحانات کی روشنی میں ان کی رہنمائی کریں
۔انہوں نے بچوں کی کردار سازی، پانچ وقت کی نماز، موبائل کے غیر ضروری استعمال سے پرہیز، وقت کی پابندی، قرآنِ پاک کی تلاوت اور پیغمبر اسلام صلعم کی سیرت سے رہنمائی لینے کی ضرورت پر زور دیا۔ ساتھ ہی بچوں میں رواداری اور سیکولر مزاج پیدا کرنے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔انہوں نے کامیاب پروگرام کے انعقاد پر تنظیم کے ذمہ داران جنرل سکریٹری خلیل الرحمٰن، احمدادریس شریف (کنوینر)، اکرامہ بن ناصرالیافعی،(شریک کنوینر)، ڈاکٹر اشم ارقم اور تمام ایگزیکٹو ممبران کا شکریہ ادا کیا۔
جنرل سکریٹری خلیل الرحمن نے افتتاحی کلمات میں طلبہ پرزوردیا کہ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیمی حاصل کریں اورمسابقتی امتحانات میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں۔ طارق انصاری (چیئرمین اقلیتی کمیشن) نے اساتذہ کی اہمیت، کردار سازی میں اسکولوں کے کردار، اردو زبان سے محبت، اور بیوروکریٹک شعبوں میں مسلمانوں کی شمولیت پر زور دیا۔
ایس اے ھدیٰ(سابق ڈائرکٹرجنرل آف پولیس) نے اپنے خطاب میں اس افسوس ناک حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ تعلیمی سال2024-25میں مسلم اقلیتی طلبہ کا SSC امتحان میں کامیابی کا تناسب سب سے کم رہا۔ انہوں نے اس فرق کو ختم کرنے کے لیے مرکوز رہنمائی، کوچنگ اور اسکالرشپس کی فراہمی پر زور دیا تاکہ مسلم طلبہ بااعتماد طریقے سے مقابلہ کر سکیں اور انتظامی شعبوں مثلاً IPS جیسے شعبوں میں اپنا مقام بنا سکیں۔
کے بابو راؤ(سابق ڈپٹی کمشنر آف پولیس) نے اپنے خطاب میں کہاکہ پرانا شہر ترقی کا گہوارہ بن سکتا ہے اگر نوجوان تعلیم، نظم و ضبط اور سیرتِ نبوی صلعم کے نقشِ قدم پر چلیں۔ انہوں نے موبائل کے غیرضروری استعمال سے گریز اور وقت کی قدر کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے نوجوانوں کو وقت کی قدر کرنے، علم کو ترجیح دینے اور ایک روشن مستقبل تعمیر کرنے کی تلقین کی تاکہ نوجوان نہ صرف خود کو سنواریں بلکہ دوسروں کے لیے بھی مشعلِ راہ بنیں۔حسنہ خان (ایڈوکیٹ) نے اپنے خطاب میں کہاکہ خواتین کو ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہیے، نہ کہ مقابل۔ انہوں نے حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ تعلیم کو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض قرار دیا گیاہے۔انہوں نے کہاکہ اسلام خواتین کی تعلیم و ترقی کا حامی ہے
۔ پروفیسر ایم ایم انورنے والدین پرزوردیا کہ وہ اپنے بچوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کریں اور ان کواپنے پسندیدہ مضامین اور شعبوں کاانتخاب کرنے دیں۔ انہوں نے کہاکہ تعلیمی ادارے نہ صرف علمی اور روحانی نشوونما کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ ثقافتی شعور، خوداعتمادی اور بہتر مستقبل کی بنیاد بھی فراہم کرتے ہیں۔انہوں نے اسکولوں میں طلبہ کوتمام زبانیں سیکھانے پرزور دیا۔ا
حمد ادریس شریف (کنوینر)، اکرامہ بن ناصرالیافعی،(شریک کنوینر)، ڈاکٹر اشم ارقم(ایگزیکٹیوممبر) اور محمد منظور احمد نے ایوارڈ تقریب کی کامیابی میں اہم رول ادا کیا۔ حفصہ خان اور نسرین فاطمہ نے پروگرام کی نظامت کی۔ تقریب میں سرکاری و نجی تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 240 طلبہ و اساتذہ کو ایوارڈس دیئے گئے۔ اس موقع پرمختلف اسکولس کے ذمہ داران، اساتذہ،طلبہ، سرپرست او ردیگرموجودتھے۔