اُردو زبان کی پرورش زمین پر ہوئی لیکن مقبولیت آسمان تک ہے
اُردو اصناف ِ سخن گوئی کی محفل سے پروفیسر اشرف رفیع ، پروفیسر ایس اے شکور، مولانا مظفر علی ابوالعلائی اور جاوید کمال کا خطاب

حیدرآباد یکم جولاٸی( محمد حسام الدین ریاض)پروفیسر اشرف رفیع سابق صدر شعبۂ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے اساتذہ پر زور دیا کہ وہ طلباء وطالبات میں مادری زبان اردو سے متعلق زیادہ سے زیادہ شغف پیدا کریں کیونکہ سماج اور نئی نسل کی تعمیر بالخصوص اردو زبان کی ترقی اساتذہ کی کاوشوں وکوششوں سے ہی ممکن ہے۔ پروفیسر اشرف رفیع صاحبہ نے ان خیالات کا اظہار انجمن ریختہ گویان حیدر آباد کے زیر اہتمام ’’اُردو اصناف ِ سخن گوئی‘‘کی ساتویں محفل سے
اتوار 29 /جون کو ابوالکلا م آزاد اور ینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ باغ عامہ نامپلی میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے اردو زبان کی شیرینی اور عالمی مقبولیت کا تذکرہ کرتے کرتے ہوئے ہوئے کہا کہ’’ اُردو زبان کی پرورش زمین پر ہوئی ہے اور اس کی مقبولیت آسمان تک ہے ۔‘‘ جس طرح اہل حیدر آبادکوہی نہیں بلکہ دنیا کے ایک بڑے حصہ کو کھٹّی دال پسند ہےاُسی طرح اُردو زبان کا مزہ بھی منہ سے نہیں چھوٹتا۔ پروفیسر اشرف رفیع نے مزید کہا کہ ہر زبان والے اپنی مادری زبان میں بات چیت کرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں
لیکن اہل اُردو، انگریزی زبان میں اگر ضرورت نہ ہو تب بھی انگریزی میں ہی بات کرنے کو قابل فخر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اُردو والوں پر زور دیا کہ وہ گھروں میں زیادہ سے زیادہ اُردو بات چیت کا ماحول بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا بھی وقت اور دور گزرا ہے کہ کسی کو پانی پیش کیا جاتا تھا تو سلام کر کے پیش کیا جاتا تھا اور جب گلاس واپس لی جاتی تو پانی پینے والا بھی اور پلانے والا بھی ایک دوسرے کوادب سے سلام کیا کرتے تھے۔ ایسی تہذیب اور روایات کااحیاء ہونا وقت کا تقاضہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اردو ہماری تہذیب اور پہچان ہے۔ انہوں نے دلچسپ ریمارک کیا اور کہا کہ خاص بات یہ ہے کہ جو اُردو کے مخالف ہیں وہ بھی اُردو زبان میں ہی اُردو کی مخالفت کرتے ہیں۔پروفیسر ایس اے شکور ڈائر یکٹر دائرۃ المعارف نے کہا کہ بولنے والوں کی تعداد اب دنیا بھر میں کروڑوں سے تجاوز کر گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ جس زبان کا اسکرپٹ ہو وہ زبان ختم نہیں ہو سکتی ۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں فلمی صنعت کی وجہ سے ہی اُردو زبان کا استحکام ہوا ہے۔ پروفیسر ایس اے شکورنے کہا کہ حکومتوں پرا پر انحصار کے بجائے اُردو زبان جاننے والے اُردو کے فروغ میں ہر ممکن حصّہ لیں اور اپنے بچوں کو اُردو مدارس میں شریک کرائیں۔
انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں ایک لاکھ41 ہزار بچے اُردو میڈیم سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس میں مزید خاطرخواہ اضافہ کی ضرورت ہے۔مولانا منظقر علی صوفی ابوالعلائی نے ڈاکٹر جاوید کمال اور ان کے رفقا کو مبارکباددی کہ وہ اُردو کے فروغ کیلئے عظیم الشان خدمت انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر عبدالرب منظر نے اردو اضاف سخن گوئی کی محفل کو اُردو ادب کی منفرد محفل قرار دیتے ہوئے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا ۔صدر انجمن ریختہ گویان ڈاکٹر جا وید کمال نے اضاف ِ سخن گوئی کی نشست کے تمام مقررین اور شر کا ء کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ شرکا ءکی شرکت سے کام کرنے کے جذبہ کو تقویت ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ محبان اُردو کے تعاون سے یہ کارواں آگے بڑھتا ہی رہے گا۔ڈاکٹر سجن سنگھ نے حیدر آبادی تہذیب و تمدن کو خراجِ تحسین ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہاں جتنی اہمیت بریانی کی ہے اتنی ہی اہمیت کھٹّی دال کی بھی ہے۔ انہوں نے اُردو خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حیدر آباد دکن کے پانی کی تاثیر ہے کہ وہ سب میں آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرتا ہے۔عطیہ مجیب عارفی نے بڑے ہی دلنشین انداز میں کاروائی چلائی اور برجستہ اشعار سناتے ہوئے محفل میں خوش گوار فضاء کو بنائے رکھا ۔
سید و اجد محی الدین نے ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ ’’کابلی والا ‘‘سنایاجسے بیحد پسند کیا گیا۔ جناب لطیف الدین نے حسبِ روایت مزاحیہ کلام سنا کر محفل کو زعفران زار کر دیا ۔ ممتاز ادیبہ و شاعرہ اور سماجی جہد کار محترمہ رفیعہ نوشین نے اسماعیل میر ٹھی کی نظم ’’دال کی فریاداور اس کا تجزیہ بعنوان (ایک استعاراتی مرثیہ براۓنسوانی وجود) پیش کیا جسے سامعین نے بیحد پسند کیا۔ ڈاکٹر حمیرہ سعید صدر شعبۂ اُردو گولکنڈہ ویمن کالج نے خواجہ حسن نظامی کا تحریر کردہ انشائہ ’’ جھینگر کا جنازہ ‘‘سنایا جو بہت ہی سبق آموز رہا ۔ڈاکٹر جاوید کمال نے ادبی لطائف سنائے اور محفل کو خوب گرمایا۔جناب سید جاوید محی الدین نے نظم ’’عورت‘‘ سنائی جو کیفی اعظمی کی لکھی ہوئی تھی۔سینئر ممتاز صحافی جناب کے این واصف نے ’’افسانچہ ‘‘’’عورتیں جھوٹ نہیں بولیں‘‘سنایا جو بہت ہی دلچسپ تھا اور خبر پہ شوشہ ‘‘ عنوان کے تحت ایک مختصر سا مضمون بھی پیش کیا ۔جناب حسام الدین ریاض کے دو مختصر مضامین سنائے۔ڈاکٹر ثمینہ بیگم (کوٹھی ویمنس کالج) نے شکر یہ اداکیا۔اس تقریب میں صحافی و شاعر جناب فرخ شہریار، حفیظ حکیم، قدسیہ بیگم ایڈوکیٹ ، رحیم النساء بیگم، سیدہ افرح صدف ، سیدہ امیرہ شفق، سیدہ فاریہ نیر، محمد عبد الرحیم، محمد ظفر الله، سید ظہور الدین ،مسعود صدیقی، ابومسعود عبد
الغنی ،سید مسیح الدین ، بصیر خالد، عذرا سلطانہ، نصیر الدین ،مسعود عالم ،شبینہ فر شوری، شفیع الدین ظفر، ڈاکٹر معین امر بمبو، خواجہ معزالدین، محمد سیف الدین، ثریا جبین ، ذاکرہ بیگم، محمد عبدالرحیم عارفی ،سیدہ فاریہ اور دیگر معززین نے شرکت کی ۔