اسلام نے حالت مرض میں صبر کو بڑی اہمیت دی ہے،چیرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

اسلام نے حالت مرض میں صبر کو بڑی اہمیت دی ہے،چیرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد 8جولائی (پریس ریلیز ) چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے صدر دفتر بنجارہلزروڑنمبر12پرمنعقدہ فکری نشست گے دوران گفتگو بتلایا کہ خردونوش انسانی زندگی کے بقاء و قیام کا اہم ترین ذریعہ ہے، اگر آدمی خوردونوش سے محروم رہے تواس میں ضعف آجاتا ہے اور وہ موت کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے، اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ دعا بھی ملتی ہے ﴿ اللّٰہم انی أعوذبک من الجوع فانہ بئس الضجیع﴾ خدایا میں بھوک سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں کیونکہ وہ بدترین ساتھی ہے۔انبیاء و رسل اور صلحاء و اتقیاء کی تاریخ بتاتی ہے کہ انھوں نے بھوک پیاس کی مشقت پر صبر کیا، قناعت، رضا بالقضا اور صبر نے ان کی زندگیوں کو آراستہ کردیاتھا، غزوئہ خندق کے موقعے پر سخت بھوک اور فاقہ مستی کا عالم تھا، ہر صحابی مضطرب تھا، ایک صحابی بے قرار ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں سخت بھوکا ہوں، اور اپنے پیٹ پر بندھا ہوا پتھر دکھادیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنا شکم مبارک کھولا تو اس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے تاکہ بھوک کی شدت کو محسوس نہ ہونے دیں۔ایک مرتبہ حضرت ابوہریررضہ خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلافِ معمول بیٹھ کر نماز اداکررہے ہیں، نماز سے فارغ ہونے کے بعد عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ بیمار ہیں؟ فرمایا نہیں: بھوک کی شدت ہے جس کی وجہ سے کھڑا نہیں ہوا جارہا ہے، اس لئے بیٹھ کر نماز ادا کررہا ہوں۔
مکی زندگی میں جب اہل کفر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور قبیلہ بنو ہاشم کا مقاطعہ کیا اور آپ کو شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا، تین سالہ مقاطعہ کی اس طویل مدت میں آپ کو اور تمام لوگوں کو بھوک اور پیاس کی مشقت پر سیکڑوں بار صبر کرنا پڑا، درخت کے پتوں پر گذارا کرنا پڑا، یہاں تک کہ منھ زخمی ہوگئے، آپ کی سیرت طیبہ میں ایسے واقعات بے شمار ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری رات بھوک کے عالم میں گذاری، بھوک مٹانے کے لئے کچھ نہ تھا، صبح کو گھر میں آتے اور کھانے کے لئے کچھ نہ ہوتا تو روزے کی نیت فرمالیتے تھے۔
صحابہٴ کرام کی زندگیاں بھی اسی رنگ میں رنگی ہوئی تھیں، انھوں نے پورے صبر اور عزیمت و حوصلہ مندی کے ساتھ بھوک و پیاس کی مشقت کا مقابلہ کیا، کبھی بھوک کی شدت ان کو بے چین بناتی تھی، کبھی پیاس کی شدت بے ہوش کردیتی تھی، اہل صفہ اس صبر کے لحاظ سے سب میں ممتاز ہیں، جس کا اندازہ صرف اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سات سات آدمی ایک ہی کھجور کو باری باری چوستے تھے تاکہ بھوک کی شدت میں کمی آئے، اس کے سوا کھانے کے لئے کچھ نہ ہوتا تھا۔مرض اور بیماری کی آزمائشوں سے عام طور پر کوئی محفوظ نہیں رہتا، اسلام نے حالت مرض میں صبر کو بڑی اہمیت دی ہے، قرآن میں حضرت ایوب کا صبر نمونہ کے طور پر بیان ہوا ہے، ان کے اندر حالت مرض میں صبر کی بے پناہ طاقت اللہ نے بھردی تھی، اسی لئے صبر ایوب ضرب المثل بن گیا،
حضرت ایوب کاصبر پریشانی زیادہ ہونے کے وقت ہمارے لئے نمونہ ہے، جس میں ہمارے لئے پناہ گاہ ہے، جس کے نور سے پریشانی ختم ہوجاتی ہے۔
حضرت ایوب کے علاوہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے لخت جگر حضرت یوسف علیہ السلام کے فراق پر بیحد صدمہ پہنچا جس سے ان کی صحت متاثر ہوئی اور روتے روتے بینائی ختم ہوگئی، مگر انھوں نے صبر سے کام لیا، حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی نے لقمہ بنایا، پھر ایک کنارے پر اگل دیا، اس وقت وہ بیحد کمزور اور نحیف و ناتواں ہوگئے تھے، مگر وہ صبر سے کام لیتے رہے، یہاں تک کہ اللہ نے ان کی طاقت انہیں لوٹادی۔
خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمام لوگوں کیلئے صبر کے میدان میں بھی بہت اعلیٰ اور عمدہ نمونہ اور مشعل راہ ہے، آپ نے خود اپنے بارے میں فرمایا ﴿انی أوعک کما یوعک رجلان منکم﴾(۵) مجھے اتنا بخار آتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کوآتا ہے، بارہا ایسا ہوا کہ آپ مبتلائے بخار ہوئے، شدت بخار کی وجہ سے آپ تڑپتے اور کروٹیں بدلتے رہے مگر آپ مرضی بقضا رہے اور کلمہٴ خیر کے سوا زبان سے کچھ نہ نکلا، حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ بخار میں تھے اور چادر اوڑھے ہوئے تھے، میں نے چادر کے اوپر ہاتھ رکھا اور کہا ﴿ما أشد حماک یا رسول اللّٰہ؟﴾ اے اللہ کے رسول ! آپ کو کتنا سخت بخار ہے؟ آپ نے فرمایا ﴿انا کذلک یشدد علینا البلاء، ویضاعف لنا الأجر﴾ ہم پر اسی طرح سخت آزمائش آتی ہے اور دوہرا اجر ملتا ہے، حضرت ابو سعید نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! ﴿من أشد الناس بلاءً؟﴾سب سے سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ فرمایا: ﴿الأنبیاء﴾ انبیاء کی، پوچھا پھر کس کی؟ فرمایا ﴿العلماء﴾ اہل علم کی، پوچھا پھر کس کی؟ فرمایا ﴿الصالحون﴾ نیک بندوں کی، پھر فرمایا کہ ﴿وکان أحدہم یُبتلیٰ بالقمل حتی یقتلہ﴾ پچھلے لوگوں میں کسی پر جویں مسلط کردی جاتی تھیں جو اسے مار ڈالتی تھیں، یہ آزمائش ہوتی تھی، ﴿وکان أحدہم یُبتلی بالفقر حتی ما یجد الا العباء ة یلبسہا﴾ اور کسی کو فقر میں مبتلا کیاجاتا تھا یہاں تک کہ اسے ایک عبا کے سوا کوئی لباس نہ میسر آتا تھا ﴿ولأحدہم کان أشد فرحاً بالبلاء من أحدکم بالعطاء﴾ ان کو آزمائش پر اتنی زیادہ مسرت ہوتی تھی جتنی تم کو نعمتوں اور عطیات پر ہوتی ہے۔