نئی نسل کواردو زبان و ادب سے جوڑنا،گھریلوماحول میں اردو میں بات چیت کا جلن نہایت ضروری ہے ،صابرایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی خواجہ کا چھلہ مغلپورہ حیدرآباد کے زیر اہتمام ادبی نشست سے مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

نئی نسل کواردو زبان و ادب سے جوڑنا،گھریلوماحول میں اردو میں بات چیت کا جلن نہایت ضروری ہے ،صابرایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی خواجہ کا چھلہ مغلپورہ حیدرآباد کے زیر اہتمام ادبی نشست سے مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد 9جولائی (پریس ریلیز ) صابر ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی خواجہ کا چھلہ مغلپورہ حیدرآباد کے زیراہتمام ادبی نشست منعقد ہوئی۔ ثقافت اور مادری زبان کے فروغ کیلئے خدمات پیش کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ رواداری کے فروغ کیلئے ادب اور ادبی محافل کلیدی کردار کی حامل ہیں۔ شاعر ادیب کسی بھی ملک اور معاشرہ کا آئینہ ہوتے ہیں مشاعروں کے انعقاد سے اردو زبان کے فروغ میں مدد ملے گی، نئی نسل کو زبان و ادب سے جوڑنے کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔ان خیالات کا اظہار صدر نشین مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے کیا ،انھوں اپنے سلسلہ خطاب کو جاری رکھتے ہوئے بتلایا کہ
اپنی زبان سے لگاؤ ہونا ایک فطرتی بات ہے۔ جن قوموں کی زبان نہیں رہتی تو میرے خیال میں وہ قوم بھی باقی نہیں رہتی۔ بے شک وہ انسان یا ان کی نئی نسلیں دنیا میں موجود رہتی ہیں لیکن ان کے آباؤاجداد تاریخ کے گمشدہ صفحات میں گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ خیر یہاں میں اس فطرتی لگاؤ پر بات نہیں کروں گا بلکہ کوشش کروں گا کہ اس منطق کی ٹھیک وضاحت کر سکوں جومیں سمجھتا ہوں کہ ہماری ترقی کے لئے بہت ضروری ہے بلکہ اس کے بغیر ترقی کا عمل نہایت ہی سست ہو کر صدیوں پر محیط ہو جائے گا۔ سب سے پہلے ایک بات واضح کر دوں کہ مجھے انگریزی یا کسی دوسری زبان سے کوئی دشمنی نہیں اور نہ ہی میں زبانوں سے دشمنیاں رکھنے کا قائل ہوں۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں جس کا جو زبان سیکھنے کو دل کرتا ہے وہ سیکھے لیکن کم از کم ہم پر تو کوئی دوسری زبان نہ ٹھونسے ۔ میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ اس بات کی وضاحت کر سکوں کہ آخر وہ کونسی زبان ہے جو ہمارے لئے سب سے زیادہ آسانیاں پیدا کرتی ہے اور ہماری ترقی کے لئے سب سے زیادہ مدد گار ثابت ہو سکتی ہے؟جہاں معاشرہ زوال کا شکار ہو وہاں پر لوگوں کو نئی زبانیں نہیں سیکھائی جاتی بلکہ پہلے سے موجود زبان میں ہی تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ جہاں تکنیکی کام رکے ہوں وہاں یہ نہیں کیا جاتا کہ پہلے دوسری زبان سیکھاؤ پھر ”ڈگری والے انجینئر“ بناؤ اور پھر ان سے کام لو بلکہ پہلے سے موجود زبان میں ہی دیسی انجینئر (مستری) بنائے جاتے ہیں اور ان سے کام لے کر ملک کو ترقی کی رہ پر گامزن کیا جاتا ہے۔ جہاں کسان ہل چلانا بھول گیا ہو وہاں پہلے اسے نئی زبان نہیں سیکھائی جاتی بلکہ فوری طور پر اس کو اسی کی زبان میں ہی ہل چلانے کی ترغیب و تربیت دی جاتی ہے تاکہ فوری اناج پیدا ہو اور انسان بھوکے نہ مریں۔ جہاں تعلیم کا فقدان ہو وہاں پر نئی زبان نہیں سیکھائی جاتی بلکہ پہلے سے موجود زبان میں ہی تعلیم دی جاتی ہے اور اگر تعلیمی مواد کسی دوسری زبان میں ہو تو پوری عوام کو نئی زبان سیکھانے سے کئی گنا آسان ہے کہ تعلیمی مواد کا اپنی زبان میں ترجمہ کیا جائے کیونکہ کوئی بھی انسان کوئی بھی بات جتنی اچھی اپنی مادری اور قومی زبان میں سمجھ سکتا ہے اتنی کسی دوسری زبان میں نہیں سمجھ سکتا۔ پتہ نہیں یار لوگوں کو اتنی چھوٹی سی بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔ اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو تاریخ کھول کر دیکھیں، سب سمجھ جائیں گے کہ جس قوم نے بھی ترقی کی وہ اپنی ہی زبان میں کی، نہ کہ کسی دوسری زبان میں۔ فرانس اور پورے یورپ نے کس کی زبان میں ترقی کی؟ جاپانی کس کی زبان میں اپنے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں؟ چین کس زبان کے بل پر ترقی کر رہا ہے؟ اور تو اور خود برطانیہ اور امریکہ نے ترقی کے لئے کس کی زبان اپنائی؟ یہ ایسے سوال ہیں جن کا جواب ڈھونڈنے چلیں تو ہم پر کئی راز کھلتے ہیں۔جہاں انسانوں کی سوچ میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو اس ہجوم کو قوم میں تبدیل کرنے کے لئے سب سے پہلے انہیں کی زبان میں بات کر کے ان کی سوچ تبدیل کرنی پڑتی ہے نہ کہ پہلے انہیں کوئی نئی زبان سیکھاؤ اور پھر بات کرو۔ جہاں بھی معاشرہ زوال کا شکار ہو وہاں پر اسے ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے کئی تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں اور سب سے پہلی تبدیلی اس معاشرے کی سوچ میں کرنی ہوتی ہے۔ سوچ کی تبدیلی کے بعد چاہے خونی انقلاب برپا ہو یا فکری انقلاب لیکن سب سے پہلی شرط سوچ کی تبدیلی ہے۔ سوچ کی تبدیلی کے لئے معاشرے کے ہر فرد تک اپنی آواز پہنچانی پڑتی ہے۔ اب اتنے بڑے ہجوم کے ہر ہر فرد کو علیحدہ علیحدہ کئی ایک زبانوں میں بات سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لئے آواز پہنچانے کے لئے کسی ایسی زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے جو ہجوم کی زیادہ تعداد جانتی ہو۔ یعنی سوچ کی تبدیلی کے لئے اپنا پیغام کسی تک پہنچانے کے لئے سب سے پہلی شرط زبان کا انتخاب ہی ہے۔ کسی قوم کی ترقی کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ وہ اپنے لئے کسی مناسب زبان کا انتخاب