مضامین

دامانِ عدالت کا رفو بول پڑا ہے – بہار میں نظر ثانی مہم اور سپریم کورٹ کی تجاویز

تحریر:سید سرفراز احمد

اس وقت بہار پورے ملک کی سرخیوں میں چھایا ہوا ہے۔الیکشن کمیشن نے جس طرح کی مہم چھیڑ رکھی ہے وہ بہار کے شہریوں کی شہریت پر سوالات کھڑے کررہا ہے۔بھلے ہی الکیشن کمیشن جعلی راۓ دہندہ گان کے نام پر بظاہر شہریوں کی اہم دستاویزات کی تنقیح کررہا ہے۔لیکن جس طرح کی تنقیح کی جارہی ہے اس سے یہ بات ثابت ہورہا ہے کہ شہریوں کی شہریت کو داغ دار بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس مہم کے بعد حزب اختلاف کی پارٹیوں کی جانب سے الیکشن کمیشن پر سوالات کی بونچھار لگی ہوئی ہے۔لیکن الیکشن کمیشن نہ تو ان کے جوابات دے رہا ہے۔نہ ہی اپنی مہم کو روک رہا ہے۔بالآخر حزب اختلاف کی پارٹیوں و دیگر نے عدالت اعظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔اور 10 جولائی کو عدالت اعظمیٰ نے دائرہ کردہ عرضیوں پر سماعت کی۔اور عدالت اعظمیٰ نے الیکشن کمیشن سے وہی سوالات دریافت کیئے جن سوالات کو حزب اختلاف کی جماعتوں نے اٹھایا تھا۔

 

عدالت نے الیکشن کمیشن کو جس طرح سوالات کے کٹہرے میں کھڑا کیا۔اس کا ایک بھی مناسب جواب الیکشن کمیشن کی جانب سے نہیں دیا گیا۔بلکہ جوابات کے لیئے وقت مانگا گیا۔پھر تو سوال یہی اٹھتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے بناء کوئی تیاری کے ہی شہریوں کی دستاویزات کی نظر ثانی مہم کیسے چھیڑ رکھی ہے؟ہاں یہ بات ضرور ہے کہ عدالت کی دورکنی بنچ نے اس مہم پر مکمل روک لگانے کا فیصلہ نہیں دیا۔لیکن جس طرح کی تجاویز الیکشن کمیشن کو دی وہ پوری طرح انصاف پر مبنی ہے۔کیونکہ عدلیہ کسی بھی کیس کو ایک ہی شنوائی میں فیصلے نہیں سنادیتی۔بلکہ تنبیہ کرتی ہے اور ہدایتیں دیتی ہے۔اگر چہ کہ اس پر عمل آواری ہوتی ہے تو ٹھیک ہے۔لیکن پھر بھی عدلیہ کی تجاویز پر عمل آواری نہیں ہوتی ہے تو تب عدلیہ کو سخت موقف اختیار کرتے ہوۓ حکم صادر کرنا پڑتا ہے۔جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس جوی مالیا باگچی نے الیکشن کمیشن کو صاف انداز میں کہا کہ شہریوں کی دستاویزات کی تنقیح کو عین انتخابات کے موقع پر ہی کیوں کی جارہی ہے؟اور اگر تنقیح کی بھی جارہی ہے تو آدھار،ووٹر شناختی کارڈ،اور راشن کارڈ کو کیوں مستشنیٰ رکھا گیا؟

 

عدالت کی دو رکنی بنچ نے یہ بھی واضح کیا کہ الیکشن کمیشن کی نظر ثانی مہم میں تاخیر ہوچکی ہے۔اور جو بہار میں کیا جارہا ہے وہ جلد بازی میں ہورہا ہے۔جو جمہوریت اور عوامی حقوق کو مخدوش کرتا ہے۔بنچ نے یہ بھی کہا کہ اگر شہریوں کی شہریت کی جانچ کرنی تھی تو اسے بروقت کرنا چاہیئے تھا۔لیکن ساتھ ہی ساتھ اس بنچ نے یہ بھی واضح کیا کہ شہریوں کی شہریت کی جانچ وزارت داخلہ کا دائرہ ہے۔نہ کہ الیکشن کمیشن کا۔اور یہ کام راۓ دہندگان کی نظر ثانی مہم پر نہیں کیا جانا چاہیئے۔اور جب آپ راۓ دہندہ گان کی دستاویزات کی تنقیح ہی کرنا چاہتے ہیں تو آدھار کارڈ،ووٹر شناختی کارڈ،اور راشن کارڈ کے ذریعہ کریں۔کیونکہ حق راۓ دہی کے لیئے ان اہم دستاویزات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔جس پر الیکشن کمیشن کے وکلاء نے آرٹیکل 326 کا حوالہ دیتے ہوۓ کہا کہ ووٹ ڈالنے لے لیئے ہندوستانی شہریت ایک لازمی حصہ ہے۔دو رکنی ججس کی بنچ نے سرزنش کرتے ہوۓ ان وکلاء کو بتایا کہ جب آدھار کارڈ کو اسکالر شپس،ذات کا سرٹیفکٹس،راشن کارڈ وغیرہ جیسے معاملات میں تسلیم کیا جاسکتا ہے تو ووٹر لسٹ کی شناخت کے لیئے کیوں تسلیم نہیں کیا جاسکتا؟

 

عدلیہ کی دو رکنی بنچ نے یہ بھی کہا کہ جو گیارہ دستاویزات جتنی کم مدت میں آپ شہریوں کے پاس دیکھنا چاہتے ہیں۔وہی مدت میں آپ بھی اپنے دستاویزات پیش نہیں کرسکتے۔تعجب خیز بات یہ بھی تھی کہ ان گیارہ اہم دستاویزات میں آدھار کارڈ،راشن کارڈ،اور ووٹر شناختی کارڈ کو شامل نہ کرنا ان دستاویزات کی اہمیت کو گھٹانا ہی سمجھا جاۓ گا۔عدلیہ نے بالآخر اس جاری مہم کو روکنے سے انکار کیا۔بلکہ الیکشن کمیشن کو تجاویز دی کہ شناختی دستاویزات کے ضمن میں متبادل زرائع اختیار کریں۔ان عرضیوں پر اگلی سماعت 28 جولائی کو ہوگی۔عدلیہ کی اس اہم شنوائی کو عرضی گذاروں نے بہت اہم قرار دیا۔اور کہا کہ الیکشن کمیشن کی اس من مانی مہم پر روک لگانے کا پہلا قدم قرار دیا۔بیش تر مبصرین عدلیہ کے اس اقدام کی ستائش بھی کررہے ہیں۔اور یہ بھی بتارہے ہیں کہ حزب اختلاف کی پارٹیوں نے اپنا جو موقف الیکشن کمیشن کو بتایا تھا اسی موقف کو عدلیہ نے بھی اپنایا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ کی ان تجاویز پر الیکشن کمیشن کونسا رخ اپناتا ہے۔اور پھر دیکھنا یہ بھی ہے کہ 28 جولائی کو الیکشن کمیشن کی جانب سے راۓ دہندہ گان کی فہرست پیش کرنے کے بعد عدالت عالیہ کونسا موقف اختیار کرتی ہے۔

 

اس پوری شنوائی پر عدالت اعظمیٰ کے تبصرے پر غور و خوض کریں گے تو بڑی اہم ترین باتیں سامنے آتی ہیں۔ایک تو یہ کہ عدلیہ نے سخت لہجہ میں یہ کہا کہ جس طرح کی دستاویزات شہریوں سے طب کی جارہی ہے وہ عوام کے حقوق کی چھیننے اور جمہوریت کو پامال کررہی ہے۔یہ بات ہم نے گذشتہ ہفتے کے مضمون میں لکھا تھا کہ الیکشن کمیشن کی ہٹ دھرمی عوام کے جائز حقوق کو سلب کررہی ہے۔جس سے جمہوریت کی روح کو نقصان پہنچے گا۔دوسری بات الیکشن کمیشن کو اگلا قدم اٹھانے سے پہلے عدالت عالیہ کا رخ اختیار کرنا پڑے گا۔یا یہ کہ عدلیہ کی ہدایت کے بغیر وہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکے گا۔تیسری بات عدلیہ نے آدھار کارڈ،راشن کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ کو اس نظر ثانی مہم میں شامل کرنے کا مشورہ دیا۔بظاہر یہ ایک طرف مشورہ ضرور ہے لیکن اپنے آپ میں ایک سخت موقف بھی ہے۔بالفرض مان لیں اگر الیکشن کمیشن عدلیہ کے متعین کردہ تجاویز پر عملی اقدامات نہیں کرتا ہے تو عدلیہ نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ ہمیں سخت موقف بھی اختیار کرنا پڑ کرسکتا ہے۔

 

سپریم کورٹ کے اس جھٹکے کے بعد یہ ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن تذبذب کا شکار ہوگیا ہو۔اور عدلیہ کی اس تنبیہ کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ جن سیاسی پارٹیوں کا اس سازش کے پیچھے ہاتھ ہے وہ بھی اپنی اس ثابت ہورہی ناکام مہم سے مایوس ہونگے۔یہی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کی اس اچانک مہم سے بہار کی عوام جن پریشنانیوں کا سامنا کررہی تھی وہ اب کہیں کہیں ایک اضطراب آمیز سکون میں بدلتی دکھائی دے گی۔بہت سے مبصرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر یہ نظر ثانی مہم بہار میں کامیاب ہوجاتی تو اس کا اگلا نشانہ بنگال ہوتا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جن وکلاء نے کمیشن کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوۓ عدلیہ میں دستور کی دفعہ 325 کا حوالہ دیتے ہوۓ کہا کہ ووٹ ڈالنے کے لیئے ہندوستانی شہریت لازمی جز ہے۔ ان کی یہی ایک بات سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ نظر ثانی مہم میں جن دستاویزات کو عوام سے طلب کیا جارہا ہے اس کو خفیہ این آر سی کی ہی ایک منظم سازش کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔یہاں ایک غور طلب سوال یہ بھی ہے کہ اگر حق راۓ دہی کے لیئے ہندوستانی شہریت لازمی جز ہے لیکن جو دستاویزات طلب کی جارہی ہے وہ تو لازمی جز نہیں ہے؟پھر یہ گیارہ دستاویزات کس بناء پر مانگی جارہی ہے؟یہ تو ایک مطلق العنان فیصلے کے مترادف ہی کہلاۓ گا۔

 

راہل گاندھی اور تیجسوی یادو نے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کی ایماء پر کام کررہا ہے۔جس کے لیئے انھوں نے چکا جام بھی کیا۔اور عوام کو اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کے لیئے سڑکوں پر لایا۔اس معاملہ میں ہم بھی اس تجزیہ پر پہنچے ہیں کہ یہ ایک منظم اور بڑی سازش کا حصہ ہے۔سرکار الیکشن کمیشن کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتی ہے۔یہ بات اب عوام کو عدلیہ کی اس سرزنش کے بعد سمجھ میں آچکی ہے۔حزب اختلاف کے قائدین اور بہار کی عوام تب تک زمین پر بنے رہیں جب تک الیکشن کمیشن عدلیہ کی تجویز کردہ تین دستاویزات کو اپنی مہم کا حصہ نہ بنالیں۔اس سازش کا ایک اور حصہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں اور عوام کو بہار میں بڑھتی غربت و بے روزگاری و دیگر مسائل سے دماغوں کو منتشر کرنے کے لیئے اس حربہ کا استعمال کیا جارہا ہو۔تاکہ تمام کی طاقت اسی مہم پر صرف ہوں اور یہ اپنی سیاست کو چمکاتے رہیں۔بہر کیف اب سب کی نظریں 28 جولائی پر مرکوز ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔بقول راحیل فاروق؎

زنجیر کی آواز تو دم توڑ گئی تھی

دامانِ عدالت کا رفو بول پڑا ہے

متعلقہ خبریں

Back to top button