مضامین

یاد رفتگاں 17 جولائی قاری محمد طیبؒ صاحب قاسمی کی رحلت کا دن

از:محمد رضوان الدین حسینی

آج 17 جولائی ہے۔ وہی دن، جب علم کا ایک آفتاب غروب ہوا، اور دارالعلوم دیوبند کی فضاؤں سے وہ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی، جو نصف صدی سے زیادہ وقت تک علم، حکمت، دین اور دعوت کی گونج تھی۔آج حضرت قاری محمد طیبؒ قاسمی صاحب کا یومِ وفات ہے – وہ درویش صفت مفکر، وہ فقیہ النفس خطیب، وہ عظیم معلم، جو صرف دیوبند کے نہیں، بلکہ ملتِ اسلامیہ کے علمی و فکری سرمایے کا سب سے تابناک چہرہ تھے۔

 

 

17 جولائی 1983ء… ایک عام تاریخ نہیں، بلکہ دلوں کو زخمی کر دینے والی ساعت تھی۔ وہ لمحہ جب وہ وجود خاکی، جس کی آنکھوں میں بینائی سے زیادہ بصیرت تھی، جس کی زبان میں تاثیر سے بڑھ کر تسلیم تھی، اور جس کی فکر میں صرف علم نہیں بلکہ امت کی رہنمائی تھی، ہمیشہ کے لیے پروردگار کے حضور حاضر ہو گیا۔قاری محمد طیبؒ صاحب کے جانے سے علم کا قلعہ ایک لمحے کو لرز گیا۔ مگر جس نے اپنی پوری زندگی علم کے چراغ روشن کرنے میں گزاری ہو، وہ مر کر بھی نہیں مرتا — وہ فکر بن کر جیتا ہے، وہ طرزِ گفتار اور اسلوبِ نگارش بن کر سانس لیتا ہے، وہ شاگردوں کے قلوب میں دھڑکتا ہے۔

 

 

حضرت قاری صاحبؒ کو صرف دارالعلوم دیوبند کی نظامت کی نسبت حاصل نہ تھی، بلکہ آپ بانیِ دارالعلوم حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کے نبیرہ تھے۔ یہ نسبت محض خاندانی نہ تھی بلکہ علمی و روحانی طور پر وراثت بھی تھی۔آپ کی تقریریں ایسی ہوتیں کہ سامع پر وجد طاری ہو جاتا، اور تحریریں ایسی کہ قاری کی سوچ میں زلزلہ برپا ہو جائے۔آپ نے دیوبندی فکر کو علمی دلائل، عرفانی نکات اور عصری فہم کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا۔
آپ نے بتایا کہ دیوبندیت کوئی جمود نہیں، بلکہ ایک متحرک فکری تحریک ہے۔

 

 

*دارالعلوم دیوبند کی تاریخ کا روشن باب*
حضرت قاری محمد طیبؒ صاحب نصف صدی تک دارالعلوم دیوبند کے مہتمم رہے۔ انہوں نے ادارے کو صرف انتظامی طور پر سنبھالا نہیں، بلکہ روحانی طور پر پروان چڑھایا۔
آپ کے دورِ نظامت میں دیوبند ایک عالمی مرکزِ علم و عرفان کی صورت اختیار کر گیا۔
آج دارالعوم دیوبند کا جو قد و قامت ہے، اس میں قاری صاحبؒ کی شبانہ روز محنت اور فکری جستجو کا گہرا اثر ہے۔

 

 

17 جولائی کا وہ دن اب تاریخ بن چکا ہے، مگر ہر سال جب یہ دن آتا ہے، دل کی زمین پر اک نمی سی اتر آتی ہے۔
ایسا لگتا ہے جیسے علم کا کوئی قافلہ تھم گیا ہو، جیسے ایک عہد ہمارے ہاتھوں سے چھن گیا ہو۔
لیکن قاری صاحبؒ کا فیض جاری ہے۔ ان کی کتابیں، ان کے افکار، ان کے شاگرد، ان کے ادارے، اور ان کی دعائیں — سب آج بھی زندہ ہیں۔
ان کی تحریروں میں آج بھی دل کو جلا ہے،

ہم جیسے کم علم، بے ہنر اور بے حیثیت لوگوں کو اللہ نے جن عظیم المرتبت ہستیوں کی نسبت عطا کی، ان کا ذکر کرنا ہمارے لیے تحدیثِ نعمت بھی ہے اور فرضِ محبت بھی۔
قاری محمد طیبؒ صاحب جیسی اجل شخصیات کا ذکر، ان کی یاد، ان کے حق میں دعا، صرف ان کا حق نہیں بلکہ ہماری نجات کی راہ ہے۔
آج کے دن ہم اشکبار آنکھوں کے ساتھ یہ دعا کرتے ہیں:

 

اللّٰہم ارحمہ رحمةً واسعۃ، واغفر لہ، وارفع درجاتہ، وابعثہ مع النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین، وحسن اولٰئک رفیقاً۔ آمین یا رب العالمین۔

متعلقہ خبریں

Back to top button