پچیس سال قیام دار القضاء جامعتہ المؤمنات مغلپورہ حیدرآباد کے سلور جوبلی جشنِ تقاریب کے ضمن میں اسلامی فقہ پرخصوصی نشست

پچیس سال قیام دار القضاء جامعتہ المؤمنات مغلپورہ حیدرآباد کے سلور جوبلی جشنِ تقاریب کے ضمن میں اسلامی فقہ پرخصوصی نشست
حیدرآباد 20جولائی (پریس ریلیز )پچیس سال قیام دار القضاء جامعتہ المؤمنات مغلپورہ حیدرآباد کے سلور جوبلی جشنِ تقاریب 9اور 10آگسٹ 2025کے ضمن میں 19جولائی کو 2025کواسلامی فقہ کے موضوع پر احاطہ جامعۃ المؤمنات مغلپورہ حیدرآباد میں خصوصی نشست منعقد ہوئی ۔ تقریب کی صدارت صدر استقبالیہ دو یومی فقہی کانفرنس حضرت سید شاہ نور الحق قادری ایڈوکیٹ نے کیا،اورڈائرکٹرکانفریس مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد مستان علی قادری بانی وناظم اعلی جامعتہ المؤمنات مغلپورہ حیدرآباد نے نگرانی کیا خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے انتظامات کی نگرانی کی جسمیں ، مختلف طبقہ ہائے فکر کی معزز شخصیات اور علماء و مشائخ موجود تھیں۔کلیتہ البین جامعۃ المؤمنات کے اساتذہ کرام کے ساتھ کلیتہ البین جامعۃ المؤمنات کے اسکالر تخصص فی الفقہ کے طلبہ بھی اس نشست میں شریک تھے۔اس نشست میں اسلامی فقہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتلایا گیا کہ دنیا کی ہر قوم اورہر مذہب میں باہمی اختلافات سے نمٹنے اور مسائل کو حل کر نے کے لیے کسی نہ کسی شکل میں قانون موجود رہاہے؛چنانچہ شریعتِ محمدی میں بھی ہر قسم کے اختلافات سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط اورپائیدار قانون موجودہے ،جس سے انسان آسانی سے اپنے تنازعات کو حل کر سکتاہے۔اس کام کوجو انجام دے اسے دارالقضاء کا امیر شریعت کہتے ہیں اور وہ جگہ جہاں باہمی تنازعات میں اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ دیا جائے اسے دارالقضاء یا شرعی کونسلنگ سنٹر کہتے ہیں
۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کویہ حکم دیاہے کہ وہ اپنے جھگڑوں کوقرآن وسنت کے مطابق حل کریں۔ قرآن کریم میں ہے: ”اے ایما ن والو ! اللہ ، رسول… اور اپنے حاکموں کی اطاعت کروپس اگر تمہارے درمیان جھگڑا ہوجائے تواس کے تصفیہ کے لیے تم اسے اللہ اور اس کے رسول(کے نائبین) کے پاس لے جاؤ،اگر تم اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور آخر ت پرایمان و یقین رکھتے ہو۔(سورة النساء:۵۹)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : اے علی جب تمہارے پاس دو آدمیوں کامعا ملہ آئے تو جب تک دوسرے کی بات نہ سن لو کوئی فیصلہ نہ کرو۔ (ترمذی حدیث نمبر:۱۳۳۱)یعنی اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قاضیوں کے لیے ایک رہنما اصول بتادیاکہ جب تک فریقِ ثانی سے رجوع نہ کرلو، اس وقت تک کوئی فیصلہ نہ دو
جب اسلام کو اس کے اصل عربی متن کے ذریعے نہیں پڑھیں گے تو پھر ان کو اسلام کا صحیح علم کس طرح ہو گا؟ ایسے ہی اسلام کی اصل تعلیمات سے بہت دور ہیں۔ اسلامی فقہ کو سمجھنے کے لیے پہلے قرآن اور احادیث مبارکہ کو عربی متن کےاسلوب میں سمجھنا ہو گا۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں صرف حرمین شریفین اور حجاز کی سرزمین ہی عرب تھی۔ شام، عراق، فلسطین، الجزائر اور دیگر عرب ممالک اس وقت عرب نہ تھے۔ فلسطین شام اور قسطنطنیہ اس وقت رومن امپائر کا حصہ تھے۔ بعد ازاں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی موجودگی میں صحابہ کرام ان ممالک میں تشریف لے گئے اور وہاں اپنے علمی وتہذیبی اثرات چھوڑے۔ صحابہ کرام کی آمد کے بعد شام، مصر، دمشق عظیم علمی مراکز بن گئے۔ ایران اس وقت فارس تھا اور یہ شہنشاہ ایران کا ملک تھا۔ افریقہ کے ممالک صحابہ پہنچے بلکہ ہند اور سندھ میں صحابہ کا ایک وفد پہنچا۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے خطوط مصر، عمان، مسقط، بہرین، ایران، حبشہ، افریقہ میں بھیجے۔ ان خطوط میں اسلامی تعلیمات اور ہدایات تھیں۔ اس سے اسلام کی فلاسفی ساری دنیا میں پھیل گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرام ہندوستان آئے اس کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہاں اسلام مزید پھیلا۔
صحابہ کرام نے اسلام میں ہمہ جہت کردار ادا کیا۔ وہ ہمہ وقت مفسر، محدث، مجاہد، غازی، جرنیل، فلاسفر، قانون دان اور سائنسدان تھے۔ صحابہ کرام جہاں بھی گئے انہوں نے اپنے ساتھ اسلامی تہذیب اور اپنی صلاحیتوں کو ساتھ لے کر گئے۔ اس وجہ سے ساری دنیا میں اسلام تیزی سے پھیلا۔
انٹرنیشنل لاء کے موجد اول اور بانی امام اعظم سیدنا امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت نے "السیر الکبیر” (پبلک انٹرنیشنل لاء) اور السیر الصغیر (پرائیویٹ انٹرنیشنل لاء) لکھی۔ ان کتب میں انہوں نے لاء کے کئی نئے رولز متعارف کروائے۔ جنگی قیدی کے اصول سب سے پہلے اسلام نے دیئے۔ اس طرح قیدیوں کے لیے قانون بھی سب سے پہلے اسلام نے متعارف کروائے۔ علامہ ابن رشد نے سب سے پہلے کنزرویٹیو لاء متعارف کرایا۔ ایڈمنسٹریشن لاء، کیس لاء بھی سب سے پہلے اسلام نے دیا۔ انٹرنیشنل لاء کے موجد امام زین العابدین کے بیٹے امام زید ہیں۔ انہوں نے یہ امام ابوحنیفہ سے بھی پہلے اس کو متعارف کرایا۔ تاجدار کائنات حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور (کانسٹی ٹیوشنل لاء) میثاق مدینہ دنیا کو دیا۔ اس کے 63 آرٹیکل ہیں۔ میثاق مدینہ کے 600 سال بعد مغربی دینا نے کانسٹی ٹیوشنل لاء شروع کیا جب کنگ جارج کے زمانے میں میگنا کارٹا نے کانسٹی ٹیوشنل لاء پر دستخط کیے۔ یورپ کو سارا علم اسلام سے ملا۔ تو کیا یہ اسلام کا ڈارک ایجز ہے؟
اس طرح سائنس میں اسلام نے سب سے پہلے کئی قانون متعارف کرائے۔ ایمبریالوجی کو سب سے پہلے اسلام نے بیان کیا اس کی تصدیق ٹورانٹو یونیورسٹی کے پروفیسر آف اٹانومی ڈاکٹر کیتھ مور نے کی۔ ٹیلی سکوپ کو عظیم سائنسدان سٹریسٹر نے 1940ء میں ایجاد کیا لیکن یہ علم 14 سو سال قبل سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم دے چکے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم بیک وقت ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بیک وقت قانون، دفاع، ریاست کی تقسیم کار، ڈیلولیشن آف پاور، کریمینل لاء، بین الاقوامی لاء، کسٹمز، کلچر، خواتین کے حقوق، بچوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق، عمر رسیدہ افراد کے حقوق اور جانوروں کے حقوق تک دیئے۔ آپ نے بین الاقوامی کمیونیٹیز کو خطاب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں جنگیں ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جنگ بندی کے معاہدات دیے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دنیا کو معاہدات دیئے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مذاکرات کیے، دنیا کے مختلف بادشاہوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بادشاہ اور سلطنت کے حکمران کے طور پر مذاکرات کیے۔ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روحانی اقدار کو زندہ کیا۔ آقا علیہ السلام نے ساری انسانیت کو روشنی دی۔ آقا علیہ السلام کا جتنا بڑا کام تھا اتنا بڑا ہی آپ کو قرآن دیا گیا۔ اس قرآن میں دنیا کا ہر علم موجود ہے۔ اتنی بڑی آپ کی حدیث ہے اور اس کے بعد اتنی بڑی ہی آپ کی امت ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ نے آسمان پر اٹھایا تو آپ کے اس وقت صرف 12 صحابی تھے۔ دوسری طرف جب آقا علیہ السلام نے خطبہ حجۃ الوداع دیا تو اس وقت سوا لاکھ صحابہ موجود تھے جنہوں نے ساری دنیا میں اسلام کو پہنچایا۔ جس وقت اسلام نے یہ سارے علوم و فنون دیئے تو اس وقت سارا یورپ اندھیرے میں تھا۔