جنرل نیوز

جامعہ عثمانیہ، جو کبھی اردو، عربی اور فارسی زبانوں کی تعلیم کا عالمی مرکز تھا، چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا عثمانیہ یونیورسٹی کے انڈر گریجویٹ کورس سے عربی فارسی کو غائب کردینے پراظہار افسوس

جامعہ عثمانیہ، جو کبھی اردو، عربی اور فارسی زبانوں کی تعلیم کا عالمی مرکز تھا، چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا عثمانیہ یونیورسٹی کے انڈر گریجویٹ کورس سے عربی فارسی کو غائب کردینے پراظہار افسوس

 

حیدرآباد 21جولائی(پریس ریلیز ) 21جولائی 2025بروزپیرکے روزنامہ اعتماد حیدرآباد میں شائع کردہ خبر پڑھنے کے بعد لسانیات کے مرکزی دفتر بنجارہلزروڑنمبر12پرایک ہنگامی اجلاس بضمن عثمانیہ یونیورسٹی کے انڈر گریجویٹ کورس سے عربی فارسی کو غائب کردینے پر چیرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کی صدارت میں منعقد ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ میں آج کے اس اہم اور فکری اجلاس میں نہایت افسوس و درد دل کے ساتھ یہ عرض کر رہا ہوں کہ جامعہ عثمانیہ، جو کبھی اردو، عربی اور فارسی زبانوں کی تعلیم کا عالمی مرکز تھا، آج وہاں سے عربی اور فارسی جیسی عظیم دینی و تہذیبی زبانوں کو خاموشی سے خارج کیا جا رہا ہے۔یہ صرف زبان کا اخراج نہیں، بلکہ برصغیر کی روحانی، علمی، اور تہذیبی وراثت پر وار ہے۔عربی وہ زبان ہے جس میں قرآن نازل ہوا، جس میں حدیثِ نبوی کی تعلیمات محفوظ ہیں، جس کے بغیر اسلامیات کا فہم ممکن نہیں۔ عربی کو ختم کرنا دین کے بنیادی ماخذ سے نئی نسل کو کاٹنے کے مترادف ہے۔اورفارسی وہ زبان ہے جس نے برصغیر میں تصوف، اخلاق، حکمت، اور اسلامی ادب کو عام کیا۔ حضرت علی ہجویریؒ، شیخ سعدیؒ، مولانا رومیؒ، اور امام غزالیؒ جیسے بزرگوں کی فکر فارسی زبان کے ذریعے ہم تک پہنچی۔اردو تو خود اسی علمی، عربی-فارسی روایت کا تسلسل ہے۔ جامعہ عثمانیہ ہی وہ پہلی یونیورسٹی تھی جہاں اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ اردو کو اگر باقی رکھ کر عربی و فارسی کو ختم کیا جائے، تو یہ ایک لسانی منافقت کے مترادف ہے۔آرٹیکل 29 – دستورِ ہند میں کہا گیا ہے کہ:

> "Any section of the citizens residing in the territory of India having a distinct language, script or culture of its own shall have the right to conserve the same.”

ہم سوال کرتے ہیں: کیا عربی و فارسی زبانیں ہماری ثقافت کا حصہ نہیں؟

کیا یہ زبانیں لاکھوں ہندوستانیوں کی دینی ضرورت نہیں؟

کیا ان زبانوں کو مٹانا آئینی حق کی خلاف ورزی نہیں؟زبان انسانی تعلق کا ایک اہم جز ہے۔اگر چہ تمام انواع کے جاندار کے رابطے کے طریقے الگ الگ ہیں لیکن انسان کے رابطے کا ذریعہ صرف زبان ہے۔زبان میں معاشرے کو بنانے اور تباہ کرنے دونوں کی طاقت ہے۔انسان کی زندگی میں زبان کی اہمیت نا قابلِ تردید ہے کیوںکہ جذبات، احساسات اور نظریات کے اظہار اور آپسی تعامل اور تہذیب و تمدن کے تحفظ اور ترسیل کا واحد ذریعہ زبان ہے۔زبان ہی ہے جو انسان کو تمام جاندا ر سے ممتاز کرتی ہے اور اہم، بے مثال اور اعلی ترین مخلوق بناتی ہے۔ زبان صرف ذریعہ مواصلات ہی نہیں بلکہ جب ہم بات کرتے ہیں، پڑھتے اور لکھتے ہیں یہاں تک کہ جب ہم سماج بنانے کے عمل میں ہوتے ہیں، گاڑی چلاتے ہیں یا تجارت کرتے ہیں ہر جگہ زبان کو کسی نہ کسی شکل میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ زندگی کے ہر پہلومیں زبان شامل ہے۔ زبان کی اصطلاحی تعریف یہ کی جاسکتی ہے کہ زبان الفاظ، علامتوں، نشانیوں، آوازوں، اشاروں کا ایک نظام ہے جس کا استعمال ایک طبقہ،قوم اور ایک ثقافت کے لوگوں میں عام ہوتاہے۔زبان اور ثقافت میں ایک گہراربط ہے اور دونوں کے مابین جز اور کل کا رشتہ ہے۔ہر زبان کسی نہ کسی مخصوص قوم اورلوگوں کی جماعت کی نشاندہی کرتی ہے اور اس کی ثقافت کا اظہار اسی زبان کے ذریعے ہوتاہے۔ جب ہم کسی دوسری زبان والے کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس ثقافت کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔دنیا کی کسی بھی ثقافت تک رسائی اور اس کی سمجھ بغیر اس کے متعلق زبان کے نہیں ہوسکتی۔ کرامچ (1991)  نے کہا ہے کہ زبان اور ثقافت دونوں لازم اور ملزوم ہیں اور ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ زبان اور ثقافت دونوں ہی انسانی زندگی کے لازمی جز ہیں نیز زبان ثقافت کا تعین کرتی ہے اور اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ثقافت کے بغیر زبان مردہ ہے اور زبان کے بغیر ثقافت کی کوئی شکل نہیں ہوگی۔ زبان انسان کی شخصیت او ر اس کی تہذیب و ثقافت کا لازمی جز ہے جس کا کردار نوع انسانی کو وحشت سے نکال کر معاشرتی زندگی میں لانے میں اہم ہے۔ایک نسل سے دوسری نسل تک تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون منتقل کرنے میں زبان کا رول ناقابل فراموش اور ناقابل تردیدہے۔ڈاکٹرحافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے کہا کہ ہمارا ارباب مجاز سے مطالبہ ہے کہ:1. عربی اور فارسی شعبہ جات کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔

2. ان زبانوں کو جامعہ عثمانیہ کی شناخت کا مستقل حصہ قرار دیا جائے۔

3. حکومتِ تلنگانہ اور وزارتِ تعلیم فوری نوٹس لے۔

4. آئینی تحفظ کے تحت ان زبانوں کو بقاء و فروغ دیا جائے۔

آخری اختتامی کلماتِ میں ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے کہا کہ ہم ان اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں جو دین، تہذیب اور علم کے سرچشموں کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم کہتے ہیں کہ:

"اگر عربی کو نکالو گے، تو قرآن سے ناتا کمزور ہوگا،

اگر فارسی کو نکالو گے، تو روحانی ادب کا دریا خشک ہوگا،

اور اگر اردو تنہا رہ جائے، تو وہ بھی بہت جلد تنہا ہو جائے گی!”

ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ہم اپنی زبانوں، اپنے دین، اور اپنے علمی ورثے کے تحفظ کے لیے ہر جائز، پرامن اور آئینی راستہ اختیار کریں گے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button