مضامین

ملک کے غدارو! بند کرو نفرت کی دکانوں کو۔ مراٹھی میں اذان کیوں؟

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی

ریٹائرڈ آئی آئی ایس

مادروطن بد نظری کا شکار ہوگیا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک کے کوئی نہ کوئی حصہ سے نفرت اور تشدد کے ایسے واقعات پیش آرہے ہیں جس سے نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی تکلیف ہوتی ہے۔ کوئی بیہودہ لیڈر اذان کو مراٹھی میں دینے کی بات کرتاہے، مدرسوں سے اردو ہٹانے کی بات کرتا ہے۔ تو کوئی اردورسم الخط کو بدلنے کی بات کرتا ہے ایسے پاگل قائدین کی جانب سے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی سازشیں روز بروز ہورہی ہیں لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مسلمان مشتعل نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ اس ملک کی سب سے بڑی ہندواکثریت ہمیشہ صداقت اور حق پرستی کے ساتھ ہوتی ہے جس کے سبب یہ نکمے ذلیل اور بدکار لوگ اپنے ہی حاشیہ میں قید ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارا اڈمنسٹریشن اورہماری عدالتیں زیادہ سرگرم نہیں ہیں جس کی وجہ سے ان کو بدگمانیاں پیدا کرنے کی تھوڑی سی مہلت مل جاتی ہے۔

 

مہاراشٹرا کا ایک فرقہ دشمن وزیر نتیش رانے جو اس صوبہ کے سابق چیف منسٹر کا بیٹاہے زہر گھولنا شروع کردیا ہے۔ اس طرح کی ذہنیت کو ٹھیک کرنے کے لئےایک ایسا پاگل خانہ بنایا جانا چاہئے جو اس طرح کے لوگوں کو صحیح ڈھنگ کی تربیت دے کر رہا کرسکے۔ اس وزیر نے کانگریس کی تجویزوں کے خلاف یہ کہاہے کہ اذان مراٹھی میں دی جائے اوار مدرسوں میں اردو کے بجائے مراٹھی پڑھائی جائے۔ اپوزیشن نے اس وزیر کی زبردست مذمت کی اور کہا کہ ایسی ناکارہ شخصیتوں پر انگشت لگایا جائے۔ این سی پی (ایس پی) کے قائد ششی کانت شنڈے نے وزارت داخلہ سے پرزور مطالبہ کیا کہ ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، وہ ریاست کے وزیر ہیں اگر ان کے ذہن میں کوئی بات آتی ہے تو وہ کابینہ کے اجلاس میں اس پر اپنی رائے دیں عام بیانات ملک کے حق میں ٹھیک نہیں ہیں۔

 

این سی پی (ایس پی)کے ایک اورقائد نے الزام لگایا کہ وہ یہ باتیں اپنے طور پر نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ انہیں نفرت پھیلانے کے لئے چنا گیا ہے۔ روپت پوار نے نفرت نہ پھیلانے کی زبردست مانگ کی۔ نتیش رانے نے لوک سبھا کے چناؤ کے دوران بھی اپنےاس نفرتی کھیل کو جاری رکھا تھا۔ پوار کا کہناہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اردو پڑھتی ہے کیونکہ اس میں اسلام کا بہت بڑا ذخیرہ پنہاں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہندو ازم انتہائی پر امن آئیڈیا لوجی کا حامل ہے اس میں ظلم، جبر اور تشدد کی کائی گنجائش نہیں ہے لیکن بعض تہوار تشدد کا شکار ہورہے ہیں کیوںکہ سنگھ پریوا رکی آئیڈیا لوجی غریب ہندؤوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسا تی ہے جس کے سبب ناخوشگوار واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں جو نا تو سنگھ پریوار کے حق میں ہے اور نہ ہی ہمارے ملک کے حق می۔ تسدد کہیں بھی وہ انسانیت کو پامال کرتا ہے۔ جس طرح آج ساری دنیا جنگ کو غلط قرار دیتی ہے لیکن اپنے سیاسی حالات پر قابو نہیں پاتی جس کےسبب جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے۔

 

کئی ملک جنگ کا سہارا لیکر اپنی سیاسی دکانوں کو چمکا رہے ہیں تو وہیں ہمارے ملک کی یہ ناعاقبت اندیش تنظیمیں اپنے ایجنڈے کو زندہ رکھنے کے لئے تشدد کا سہارا لے رہی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہماری عدالتیں نیند سے جاگیں اور اس طرح کے واقعات پر کڑی نظر رکھیں جس کے چلتے ہمارا ملک دہشت اور وحشت سے نکل کر ایک پر امن راہ پر چل سکے تاکہ عوام کو اچھی غذا اچھی صحت، اچھی تعلیم اور پر امن فضا دی جاسکے۔ مادیت پرستی کو جب تک کچلا نہیں جائے گا اس وقت تک ہم اہنے نصب العین کو حاصل نہیں کرپائیں گے۔ ہمارے صوفی اور سنتوں کو بھی جاگنا پڑے گا جہاں سے امن و امان کی باتیں عام ہوسکیں۔ مادیت پرستی کی مذمت کرتے ہوئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

 

جوانی، حسن، مئے خانے لب و رخسار بکتے ہیں

حیا کے آئینہ بھی اب سر بازار بکتے ہیں

شرافت، ظرف، ہمدردی دلوں سے ہوگئی رخصت

جہاں دولت چمکتی ہے وہاں کردار بکتے ہیں

اب ہم سب کو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے محنت کرنی چاہئے۔

 

اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ محنت کا پھل اور مسئلہ کا حل رب دےگا۔ یہ مت سوچو، یہ مت پوچھو کہ کب دےگا، جب بھی دے گا بے حساب دے گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button