مضامین

آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے – آپریشن سندور:حکومت سوالات کے گھیرے میں

تحریر:سید سرفراز احمد

جمہوریت میں سوالات حزب اختلاف سے نہیں برسر اقتدار سے ہی پوچھے جاتے ہیں۔اور اپوزیشن کا سوال پوچھنا آئینی حق ہے۔لیکن اس آئینی حق کو حکمران برداشت نہیں کرپاتے۔بلکہ اس میں بھی اپنی سیاست کو چکمانے کی کوشش کرتے ہیں۔اپوزیشن جماعتوں کا سوال پوچھنا عوام کا سوال پوچھنے کے مترادف ہوگا۔اگر اپوزیشن کے سوالات کو حکمران دشمن کی صف میں کھڑا کردیتے ہیں تو یہ ایک نچلی درجہ کی سیاست کا حصہ ہی کہلاۓ گا۔کیونکہ سوالات سے بچنے کا یہ سب سے آسان راستہ ہے۔جو حکمران جوابات دینے سے گریز کرتے ہیں وہ اپنا دفاعی انداز جارحانہ تیور اپناتے ہوۓ دینے لگتے ہیں۔جس سے ایک تو جمہوریت کو داغ دار بنایاجاتا ہے۔دوسرا سوال پوچھنے کا حق چھینا جاتا ہے۔یہ وہ سوچ ہے جو جمہوریت کے گن تو گاتے ہیں لیکن آمریت کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔اگر سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا تو بچی کچی جمہوریت کا بھی صفایا ہوجاۓ گا۔یہ اچھی بات ہے کہ حزب اختلاف اس بار کثیر تعداد میں موجود ہے جو ہر وقت سرکار کا طبلہ بجا رہا ہے۔جس سے سرکار تذبذب کا شکار ہے۔سرکار ہر وقت حزب اختلاف کے جوابات سے رفو چکر ہونے کی فراغ میں ہوتی ہے۔لیکن حزب اختلاف ہر پارلیمنٹ سیشن میں سرکار کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔جس سے سرکار کی خفیہ پالیسی اور ناکامی ظاہر ہوتی رہی ہے۔ورنہ اگر خزب اختلاف کی عددی قوت کم ترین ہوتی تو یہ حزب اختلاف کو بہت کمزور کردیئے ہوتے۔

 

لوک سبھا کے مانسون اجلاس میں آپریشن سندور پر سولہ گھنٹے بحث کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ حزب اختلاف کے قائدین نے اس بحث میں حصہ لیتے ہوۓ سرکار کی ناکام پالیسیوں کو اٹھایا۔اور تیکھے سوالات سے حملے کیئے۔لیکن ہمیشہ کی طرح وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے۔سرکار نے بجاۓ جوابات دینے کے ماضی کے قصیدے پڑھتے ہوۓ نہرو اور اندرا گاندھی کے دور کو یاد کیا۔لیکن یہ تو ایک ماضی ہے۔عوام سرکار سے ماضی کے قصے سننا نہیں چاہتی بلکہ آج کے آپ کے کارناموں اور ناکامیوں کو سننا چاہتی ہے۔لیکن ایسا لگ رہا تھا لوک سبھا کا ایون نہیں بلکہ میدان جنگ ہے۔جو ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔جس ایوان میں پورے ملک سے چنندہ افراد جمع ہوتے ہیں وہی جب جھوٹ، فریب ،تانا شاہی،اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ غیر سنجیدہ قائدین کا عوام نے کیسے انتخاب کرلیا؟لیکن ایوان میں جنگ بندی کے موضوع پر جو جنگ چھڑی پھر تو سرکار کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔

 

ایک طرف اکھلیش یادو،پرینکا گاندھی،اور راہل گاندھی نے بلاخوف و جھجھک کے سوالات کی بونچھار لگادی۔وہیں پر سرکار کی جانب سے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ،وزیر خارجہ جے شنکر،وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی نے حزب اختلاف کے جوابات دینے کے بجاۓ یوٹرن لیتے ہوۓ ماضی کی ناکامیوں کو اپنے جوابات کا ذریعہ بنایا۔جو ایک کامیاب سرکار کی اچھی خصوصیت نہیں کہی جاسکتی۔بلکہ ایک کامیاب سرکار اپوزیشن کے سوالات کو سنجیدگی سے غور کرتے ہوۓ تشفی بخش جوابات دیتی ہے۔یا پھر اپنی ناکامیوں کو قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔اسی سچائی کو ملک کی عوام بھی قبول کرتی ہے۔ورنہ گول مٹول سیاست کی طرح پارلیمنٹ میں بھی یہی رویہ اپنایا جاۓ گا تو ایسی سرکار کو عوام کی تلخ کلامی بھی برداشت کرنا پڑے گا۔جیسے اس بحث کے بعد پہل گام حملے میں اپنے شوہر شبھم دیوائیدی کو کھونے والی ایشنائیہ دیوائویدی نے اے این آئی سے بات کرتے ہوۓ بتایا کہ مجھے افسوس ہے کہ وزیراعظم نے پہل گام حملے میں شہید ہونے والے 26 افراد کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔بہ نسبت اس کے راہل گاندھی پرینکا گاندھی نے ان تمام شہیدوں کا تذکرہ کیا۔ویسے عوام کو یہ بھی یاد ہوگا کہ ہمارے وزیراعظم پہل گام حملے کے دوران سعودی عرب کے دورے پر تھے۔پھر اپنے دورے کو مختصر کرکے بھارت لوٹے۔یہ اچھی بات تھی۔لیکن بھارت لوٹتے ہی بہار کے سیاسی جلسے کے لیئے روانہ ہوگئے۔ان چھبیس خاندانوں کے علاوہ پورے ملک نے دیکھا کہ وزیراعظم کے لیئے کیا اہم تھا۔

 

لوک سبھا کی اس اہم بحث میں حزب اختلاف نے جن سوالات کو بحث کا حصہ بنایا۔ وہ بہت اہم ہیں۔ایک تو جنگ بندی کیوں ہوئی؟دوسرا جنگ بندی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے کہنے پر کیوں ہوئی؟تیسرا ہمارے کتنے طیارے گراۓ گئے؟چوتھا پہل گام حملے کے کتنے دہشت مارے گئے؟یہی وہ سوالات تھے جس کے ارد گرد بحث و مباحثہ ہوا۔راہل گاندھی نے بار بار کہا کہ ٹرمپ نے اٹھائیس مرتبہ کہا کہ میں نے جنگ بندی کروائی۔اور وزیر اعظم کو چیلنج دیتے ہوۓ کہا کہ اگر ٹرمپ نے جنگ بندی نہیں کروائی تو وزیراعظم اس اجلاس میں سب کے سامنے کہہ دیں کے ٹرمپ نے جھوٹ کہا ہے۔اب یہ جواب دینا وزیر اعظم کے وقار کا مسئلہ بن گیا تھا۔لیکن وزیر اعظم نے یہ تو نہیں کہا کہ ٹرمپ نے جھوٹ کہا ہے۔بلکہ منطقی انداز میں ٹرمپ کا نام لیئے بغیر جواباً کہا کہ دنیا کے کسی لیڈر نے جنگ نہیں رکوائی۔اور یہ بھی کہا کہ پاکستان نے ہم سے جنگ بندی کے لیئے بار بار رابطہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہم نے پاکستان کے اندر گھس کر حملے کیئے۔جیسا کہ گودی میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ ہم کراچی میں گھس گئے اور لاہور میں پہنچ گئے۔تھوڑی دیر کے لیئے ایسا لگا کہ لاہور اور کراچی بھارت کے قبضے میں آگئے ہیں۔ایوان بالا میں وزیراعظم نے بار بار کہا کہ ہمارا مقصد دہشت گردوں،ان کے آقاؤں اور ان کے ٹھکانوں کو ختم کرنا تھا۔جس کو ہم نے مکمل کیا۔

 

پھر سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر سے دہشت گردی ختم ہوگئی؟کیا پھت دوبارہ اس طرح کے حملے نہیں ہونگے؟پہل گام حملے سے قبل بھی امیت شاہ نے یہی کہا کہ کشمیر سے دہشت گردی ختم ہوچکی ہے۔کیرالا کے وائی ناڈ کی رکن پارلیمان پرینکا گاندھی نے انتہائی سنجیدگی سے بہت اہم سوالات کو اٹھایا۔پرینکا گاندھی کے سوالات اور ان کی بحث عوام میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔پرینکا نے دوٹوک انداز میں کہا کہ یہ سرکار ہر چیز کا صرف کریڈیٹ لینا چاہتی ہے۔لیکن کوئی زمہ داری نہیں لینا چاہتی ہے۔بلکہ زمہ داری سے بھاگنا چاہتی ہے۔پہل گام حملے کے پیچھے سب سے بڑی چیز سکیورٹی چونک تھی۔حملے سے کچھ عرصہ پہلے ہی وزیر داخلہ کشمیر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کشمیر سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوچکا ہے۔اور پھر پہل گام واقعہ ہوجاتا ہے۔سرکار کو سکیورٹی چونک کی زمہ داری قبول کرنی ہوگی۔انھوں نے کانگریس دور حکومت کا تذکرہ کرتے ہوۓ کہا کہ جب کانگریس کے دور میں جب بھی کچھ حملے ہوۓ ہمارے قائدین نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیا۔

 

آج کی سرکار سے ابھی تک نہ کسی نے استعفیٰ دیا اور نہ ہی زمہ داری قبول کی ایسا کیوں؟پرینکا گاندھی نے پہل گام حملے کے ان تمام چھبیس بھارتی شہداء کا نام لیتے ہوۓ انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔لیکن این ڈی اے کے لوک سبھا اراکین نے شور و غل مچایا کہ وہ تمام شہداء ہندو تھے۔لیکن پرینکا گاندھی نے زور دار لب ولہجہ میں بھارتی کہہ کر ایک ایک نام لیتی گئی اور انڈیا اتحاد کے اراکین پارلیمنٹ صدا بلند کرتے رہے۔ذرا توقف کریں اور سوچیں کہ بھاجپا کے ارکان پارلیمنٹ ایک ایسے وقت بھی ہندو مسلم کرنا چاہتے ہیں۔جب کہ دنیا نے دیکھا کہ کشمیری مسلمانوں نے پہل گام حملے بعد بھارت کی مختلیف ریاستوں کے سیاحوں کے لیئے کیا کچھ قربانیاں پیش نہیں کی۔بلکہ ایک گھوڑا سوار نے سیاحوں کو بچانے کے لیئے اپنی جان کا بھی نذرانہ پیش کیا۔بہت سے گھوڑا سواروں نے اپنی پیٹھ پر سیاحوں کو بٹھاکر محفوظ مقامات تک پہنچایا۔جس میں بی جے پی کا خود قائد بھی موجود تھا۔تو کیا یہ سب قربانیوں کو یوں ہی فراموش کردیا جاۓ گا؟

 

سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے درمیان بھی نوک جھونک چلتی رہی۔کیونکہ اکھلیش یادو نے بہت چبتے ہوۓ سوالات کیئے۔امیت شاہ نے بتایا کہ ہم نے آپریشن مہا دیو کے ذریعہ تین دہشت گردوں کو ختم کیا۔اب ہم نہ صرف دفاعی پالیسی اپنا رہے ہیں بلکہ جارحانہ رخ بھی اختیار کر رہے ہیں۔اکھلیش نے بحث میں حصہ لیتے ہوۓ کہا کہ کل ہی (یعنی پارلیمنٹ اجلاس سے ایک دن قبل تین دہشت گردوں کا انکاؤنٹر کیا گیا)انکاؤنٹر کیوں کیا گیا؟اکھلیش کا سوال اس بات کو ظاہر کررہا ہے کہ آج پارلیمنٹ کا آغاز ہونے والا تھا۔اور کل ہی یہ انکاؤنٹر کیوں ہوا ہے؟تاکہ ملک کے سامنے جواب پیش کیا جاۓ۔اکھلیش نے مسکرا مسکرا کر بڑی ہی سنجیدگی سے پوچھا کہ بھارت کی جنگ پاکستان سے تھی تو جنگ بندی کا اعلان بھارت کی طرف سے ہونا چاہیئے تھا۔ناکہ ٹرمپ کی طرف سے۔پھر اکھلیش نے مسکرا کر کہا کہ یہ دوستی اتنی گہری ہے کہ انھوں نے اپنے دوست سے کہہ دیا کہ جنگ بندی کردو۔پھر سوال کیا کہ بھارت اتنی مضبوط پوزیشن میں تھا تو پھر جنگ بندی کیوں کی گئی؟کیونکہ یہ معاملہ نہ ہی سرکار کا تھا نہ ہی اپوزیشن کا یہ معاملہ تو ملک کی قومی سلامتی کا تھا۔پھر سرکار نے ٹرمپ کی بات کیوں مانی؟

 

اصل بات یہ ہے کہ پہل گام حملے میں حکومت سے سیکیورٹی چونک ہوئی۔لیکن حکومت زمہ داری لینے سے کترا رہی ہے۔اگر سرکار زمہ داری کو قبول کرلے گی تو ان کی سیاسی ساکھ کو نقصان کا اندیشہ ہے۔لیکن زمہ داری سے راہ فرار اختیار کرنا بھی ایک غیر زمہ داری معاملہ ہے۔جس کا جواب عوام ہی دے سکتی۔آپریشن سندور دہشت گردانہ حملے کا ایک اچھا اقدام تھا۔لیکن جنگ بندی کا اعلان امریکی صدر کی طرف سے ہونا یہ ملک کے لیئے شرم ناک تھا۔اس سے بھی شرم ناک بات یہ بھی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم ٹرمپ کی دوستی یا شائد ان کا خوف دل میں اس قدر بڑھ گیا کہ وہ جھوٹ کو جھوٹ بولنے کی بھی ہمت نہ کرسکے۔جب کہ اسی ٹرمپ نے ہمارے ملک کی بے عزتی کرتے ہوۓ یہاں تک کہہ دیا کہ بھارت اور روس کی معیشت مردہ ہے۔سوال تو پھر یہاں بھی اٹھتا ہے۔کیا ٹرمپ کا یہ دعویٰ سچا ہے یا نہیں؟ تو ہمارے وزیر اعظم کے لب کیوں سلے ہوۓ ہیں؟ابھی امریکہ نے 25 فیصد ٹیرف بھارت پر عائد کردی ہے۔بلکہ ساتھ ہی ساتھ جرمانہ بھی لگاۓ گا۔جو دیگر ممالک کے لیئے ابھی نہیں لگایا گیا۔پھر مودی اور ٹرمپ کی دوستی کس کام کی۔ امریکہ یہی چاہتا ہے کہ بھارت روس سے اپنے تعلقات منقطع کرلیں۔ہتھیار لینا بند کردیں تاکہ یہ ساری تجارت امریکہ سے ہو۔کیونکہ ٹرمپ ایک لالچی تاجر ہے۔یہ بات عرب ممالک سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔

 

وزیراعظم نریندر مودی کا ایک جملہ جو اس ملک کی عوام کی سمجھ سے باہر ہیں۔انھوں نے لوک سبھا میں کہا کہ آپریشن سندور جاری ہے۔عوام کے زہنوں میں یہ سوال الجھن کا شکار بنا ہوا ہے کہ جنگ بندی تو ہوگئی پھر آپریشن سندور کہاں سے جاری ہے؟اور کیوں جاری ہے؟ غالب نے کہا تھا دل کو خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے بالکل اسی طرح ہمارے وزیراعظم ملک کی عوام میں دھول جھونکنے کے لیئے آپریشن سندور کا سہارا لے رہے ہیں۔کیونکہ بات پلٹ کر پھر وہیں آتی ہے۔جب آپریشن سندور جاری ہی رکھنا تھا تو جنگ بندی کیوں ہوئی؟ بہر کیف لوک سبھا کی اس بحث میں اپوزیشن نے جو کھرے کھرے سوالات اٹھاۓ کاش سرکار کی جانب سے ان تمام کے تشفی بخش جوابات دیئے جاتے۔جس سے اپوزیشن کو بھی اور ملک کی عوام کو بھی اطمینان حاصل ہوتا۔چونکہ جمہوریت کے اس مندر میں جھوٹ کی سیاست کرنا جمہوریت کے مغائر ہیں۔بلکہ سچائی اور زمہ داری کو قبول کرنا ملک کی سلامتی کے لیئے اپوزیشن سے مشاورت کرنا عوامی مسائل کو حل کرنا یہی اس ہاؤس کی شان ہے۔آئینہ دکھانا اپوزیشن کا کام ہے۔اور اس آئینہ کو مثبت نگاہ سے دیکھتے ہوۓ سچائی کو حقیقت کو تلاش کرنا حکمران کا کام ہے۔اگر حال اس کے برعکس ہوگا تو نہ ایوان کا وقار برقرار رہے گا نہ جمہوریت کی شان باقی رہے گی۔بقول پرویز انجم؎

عیب ہر شخص میں جو ڈھونڈ رہے تھے انجمؔ

آئیــنہ ان کـــو دکـــھایا تـــو بـــرا مـــان گـــئے

متعلقہ خبریں

Back to top button