جنرل نیوز

تلنگانہ میں آج بھی اہل صحافی سرکاری وظیفہ، ذاتی رہائش گاہ اور مفت بس سفر سہولتوں سے محروم

تلنگانہ میں آج بھی اہل صحافی سرکاری وظیفہ، ذاتی رہائش گاہ اور مفت بس سفر سہولتوں سے محروم

حکومت تلنگانہ کے ”کارنامہ حیات ایوارڈ یافتہ“ صحافی رفیق شاہی کا احتجاجی بیان

نظام آباد:4/اگست (ای میل) ہمارے ملک میں اہل صحافی کو جمہوریت کا ”چوتھا ستو ن“ تسلیم کیا گیا ہے اور سماجی ترقی میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر کوئی مرکزی یا پھر ریاستی حکومتیں اپنے باگ ڈور نہیں چلاسکتے ہیں۔ یہاں اس امر کا انکشاف لازمی ہوگا کہ 1969ء تا 2013ء کے دوران متحدہ ریاست آندھراپردیش کے وقت علیحدہ تلنگانہ ریاست تلنگانہ کی تحریک میں ”پیشہ صحافت“ کا ایک اہم رول رہا ہے۔ اس دوران ریاست سے وابستہ کئی صحافیوں کو کالاپانی، راج مندری جیل میں قید کیا گیا تھا۔ مگر افسوس کہ ملک کی 29ویں ریاست تلنگانہ کی 2/جون 2014ء کو تشکیل کے بعد سے لیکر آج تک ریاستی سطح سے وابستہ کئی سینئر اہل صحافی جو آج بھی باحیات ہیں جن کا تعلق اُردو، تلگو، انگلش اور ہندی روزنامہ، سہ روزہ، ہفتہ وار اخبارات کے علاوہ 15روزہ اور ماہنامہ رسائل سے ہیں آج بھی اپنی صحافتی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس خصوص میں حکومت تلنگانہ نے کبھی بھی ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں نہیں سوچا۔ وہ اِس وقت بڑی کسمپرسی کے حالات میں کرایہ کے مکانات میں اپنی زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔ اس کے برخلاف موجودہ حکومت تلنگانہ ان تمام سینئر سرگرم صحافیوں کو صرف اپنے مقاصد کو انجام دینے کیلئے استعمال کررہی ہے۔ ان باتوں کا متحدہ ضلع نظام آباد سے وابستہ حکومت تلنگانہ کی جانب سے ”کارنامہ حیات ایوارڈ یافتہ“ صحافی اور ہفتہ وار ”للکار“نظام آباد کے ایڈیٹرانچیف رفیق شاہی نے اپنے ایک جاریہ ایک صحافتی بیان میں بتایا کہ ملک کے کئی ریاستوں میں پیشہ صحافت سے وابستہ اہل صحافیوں کے جاریہ صحافتی اعتراف خدمات کے پیش نظر وہاں کے متعلقہ ریاستوں کی جانب سے کئی سہولتیں دی جارہی ہے جن میں انہیں ہرماہ کے دوران کثیر رقومات پر مکمل وظیفہ جاری کرنے کی سہولت بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ان تمام سرگرم اہل صحافیوں کو متعلقہ ریاستی آرٹی سی بسوں میں مفت بس سفر کی بھی سہولتیں فراہم ہے۔ رفیق شاہی نے مزید کہاکہ حال ہی میں بہار ریاست کے موجودہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے ریاستی سطح کے تمام اہل صحافیوں کیلئے جو ہر ماہ فی کس (6) ہزار روپئے بطور وظیفہ کی شکل میں گذشتہ 5سال سے اجرائی عمل میں آرہی ہے اس اجرائی رقم کو بڑھاکر (15) ہزار روپئے کردینے کا اعلان کیا ہے اور یہ اعلان پیشہ صحافت سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے قابل تعریف کہلاتی ہے۔ اس کے برخلاف ریاست تلنگانہ حکومت کی جانب سے یہاں کے اہل صحافیوں کو آج تک اپنی ذاتی رہائش گاہ تعمیر کرنے کیلئے سرکاری اراضیات منظور کرنے میں بالکل ناکام ثابت ہورہی ہے یہاں تک کہ حکومت تلنگانہ کی جانب سے ان تمام ریاستی اہل صحافیوں کو اجراء کردہ ”راجیو گاندھی آروگیہ شری جرنلسٹس ہیلتھ کارڈ“بھی ریاست کے کئی بڑے دواخانوں میں عدم کارکرد ثابت ہونے کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ آخر میں رفیق شاہی کہنہ مشق سرگرم صحافی نے موجودہ حکومت تلنگانہ سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ بھی حکومت بہار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہاں بھی تلنگانہ ریاست کے تمام سرگرم عمل صحافیوں کے جاریہ صحافتی اعتراف خدمات کے پیش نظر انہیں ہر ماہ اعزازی طورپر فی کس (15) ہزار روپئے مختص کرنے کے علاوہ انہیں (TGSRTC) کے تحت روزآنہ چلائی جانے والی تمام ریاستی بسوں میں ”مفت سفر“ کی سہولتیں مہیا کرنے کے متعلق اپنے احکامات اجراء کریں تاکہ ریاستی موجودہ صحافیوں میں موجودہ حکومت کے تعلق سے جو ناراضگیا ں دن بہ دن پیدا ہوتی جارہی ہے ان تمام شکایات کا فوری طورپر ازالہ ہوسکے ورنہ موجودہ ریاستی حکومت کو ریاستی اہل صحافیوں کے پرزور احتجاج کا سامناکرنے کیلئے تیار رہنا پڑے گا جس کی ساری ذمہ داری حکومت تلنگانہ پر عائد ہوگی۔ یہاں اس بات کا ذکر لازمی ہوگا کہ تلنگانہ ریاست کے جملہ (119) اراکین اسمبلی کو حکومت تلنگانہ کی جانب سے ہر ماہ کے دوران تنخواہیں اجرا ء کرتی ہے اور جب یہ اراکین اسمبلی اپنے پانچ سالہ معیاد مکمل کرنے کے بعد بھی انہیں ہر ماہ وظیفہ کی متعلقہ حکام کی طرف سے تقسیم عمل میں لائی جاتی ہے۔ جبکہ یہاں تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے کہ تلنگانہ کے اہل صحافی جو (24×7) تازہ خبروں کی تلاش میں گھومتے رہتے ہیں اور مقامی شہریوں کی مختلف شکایتوں سے حکومت تلنگانہ کو واقفیت کرانے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ یہاں تک کہ وہ کسی جرم کا انکشاف کرنے کے دوران اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں پھر بھی موجودہ تلنگانہ حکومت آج بھی ریاستی اہل صحافی کو ہر ماہ سرکاری وظیفہ، ذاتی رہائش گاہ اور ریاستی سطح پر تمام ریاستی آرٹی سی بسوں میں مفت بس سرویس کی سہولتیں دینے سے کیوں انکارکررہی ہے۔ ایسے حالات میں یہاں حکومت تلنگانہ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ کوئی بھی ریاستی اہل صحافی ”ایک نیا سرخ انقلاب“ لانے کی صلاحیت بھی رکھ سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button