اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مکمل قبضے کی منصوبہ بندی – 5 ماہ میں کارروائی مکمل کرنے کا نشانہ !

یروشلم / غزہ، 7 اگست ( اردولیکس ڈیسک)غزہ میں جاری جنگ ایک نئے اور انتہائی خطرناک مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے۔ اسرائیل نے اب حماس کو نیست و نابود کرنے سے آگے بڑھ کر پورے غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے
۔ "دی ٹائمز آف اسرائیل” کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کی قیادت میں سیکیورٹی کابینہ اور فوجی اداروں نے ایک نیا جنگی منصوبہ تیار کیا ہے جس کے مطابق آئندہ پانچ ماہ میں غزہ کو اسرائیل کے کنٹرول میں لایا جائے گا
منصوبے کے مطابق، اسرائیل سب سے پہلے غزہ شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرے گا۔ امدادی مراکز قائم کر کے عام شہریوں کو وہاں منتقل کیا جائے گا، تاکہ باقی علاقوں میں فوج کو کھلی کارروائی کا موقع ملے۔ اس مقصد کے لیے اسرائیلی فوج نے غزہ کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں عوام کو نقل مکانی کی سخت وارننگ جاری کر دی ہے۔
تقریباً 10 لاکھ فلسطینیوں کو غزہ خالی کرنے کا حکم دیا جائے گا، اور ان کے لیے وسطی غزہ میں خصوصی کیمپ قائم کیے جائیں گے۔ اسرائیلی حکومت نے ان کیمپوں میں عارضی رہائش، بنیادی سہولتیں اور خوراک کی ذمہ داری لینے کا اعلان کیا ہے۔
غزہ کے جو علاقے عوام سے خالی کروائے جائیں گے، وہاں اسرائیلی فوج حماس کے مبینہ جنگجوؤں کے خلاف وسیع پیمانے پر زمینی کارروائی کرے گی۔ منصوبے کے مطابق، ان کارروائیوں کے ذریعے حماس کو مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی جائے گی۔
تاہم، فوجی حلقوں میں اس حکمت عملی پر تحفظات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق، حماس کے قبضے میں اس وقت تقریباً 50 اسرائیلی یرغمالی موجود ہیں، جن کی زندگیاں اس کارروائی سے خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
اسرائیلی فوج نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر زمینی کارروائیاں تیز ہوئیں تو یرغمالیوں کی ہلاکت کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ لیکن وزیراعظم نیتن یاہو کی قیادت میں حکومت سخت موقف پر قائم ہے اور کسی قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔
حال ہی میں فوجی اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں بھی نیتن یاہو نے واضح طور پر کہا کہ غزہ پر مکمل قبضہ اسرائیل کا اسٹریٹجک ہدف ہے، چاہے اس کے لیے کسی بھی قیمت پر جانا پڑے۔
اس منصوبے پر مصر اور قطر نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ دونوں ممالک نے امریکہ کے توسط سے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ حماس سے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا پرامن حل تلاش کرے۔ اطلاعات کے مطابق، امریکہ بھی ممکنہ ثالثی کے لیے متحرک ہے، اور اگر حماس کے ساتھ کامیاب مذاکرات ہوتے ہیں تو اسرائیل عارضی طور پر فوجی کارروائیاں روک سکتا ہے۔
تاہم، اسرائیلی حکومت اس راستے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ ایک اور ممکنہ منصوبے کے طور پر اسرائیل غزہ کا مکمل محاصرہ کر کے انسانی امداد بند کرنے کا طریقہ بھی آزمانے پر غور کر رہا ہے، اگرچہ یہ طویل المدتی اور زیادہ پیچیدہ مرحلہ ہوگا۔
ادھر اسرائیلی وزیر دفاع نے فوج پر زور دیا ہے کہ وہ حکومت کے فیصلوں پر عمل درآمد کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ "فوج کا کام حکم پر عمل کرنا ہے، پالیسی بنانا نہیں۔” یہ بیان حکومت اور فوج کے درمیان موجود اختلافات کو کھلے عام ظاہر کرتا ہے۔
اس جنگ کو شروع ہوئے دو سال کا عرصہ ہو چکا ہے، لیکن اسرائیل غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اب اسرائیلی حکومت ہر حال میں غزہ کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتی ہے،
چاہے اس کے لیے شہری نقل مکانی ہو، یرغمالیوں کا خطرہ ہو یا عالمی دباؤ۔ دنیا بھر میں اس منصوبے پر شدید تشویش پائی جا رہی ہے کہ آیا اسرائیل اس قبضے کے دوران انسانی حقوق کا احترام کرے گا یا نہیں۔