صدقہ نہ صرف محتاجوں کی مدد کا ذریعہ ہے بلکہ مصیبتوں، آفات اور بلاؤں کو دور کرنے کا سبب بھی بنتا ہے،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

صدقہ نہ صرف محتاجوں کی مدد کا ذریعہ ہے بلکہ مصیبتوں، آفات اور بلاؤں کو دور کرنے کا سبب بھی بنتا ہے،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد 9آگسٹ (پریس ریلیز ), خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ اسلام ایک کامل اور جامع دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ صدقہ و خیرات کا تصور روزِ اوّل سے شریعتِ مطہرہ میں موجود ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر صدقہ دینے کی فضیلت اور اس کے دنیاوی و اُخروی فوائد بیان ہوئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:صدقہ رب کے غضب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔ (ترمذی)صدقہ نہ صرف محتاجوں کی مدد کا ذریعہ ہے بلکہ مصیبتوں، آفات اور بلاؤں کو دور کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے مذید بتلایا کہ صفر المظفر اور بدگمانیاں،بعض لوگ صفر المظفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے ہیں اور "تیرہ تیزی” جیسے وہم و بدعات کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ عقیدہ سراسر غلط اور شریعت کے منافی ہے۔ صحیح احادیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:یعنی نہ کوئی بیماری خود بخود لگتی ہے، نہ کوئی بدفالی درست ہے، نہ الو کی نحوست، اور نہ صفر کی کوئی نحوست ہے۔
اسلام نے ہر مہینے کو اللہ کی مخلوق قرار دیا ہے، اس میں کوئی مہینہ نحوست یا برکت کا خود بخود حامل نہیں ہوتا۔ نحوست کا تصور جاہلیت سے آیا، جس کی نبی کریم ﷺ نے سختی سے تردید کی۔صفر کے مہینے میں صدقہ دینا، نوافل پڑھنا اور محتاجوں کی مدد کرنا نہ صرف باعثِ اجر ہے بلکہ دل میں پیدا ہونے والے وسوسوں اور بدگمانیوں کو بھی مٹاتا ہے۔ اصل ایمان یہ ہے کہ ہر حال میں اللہ پر توکل رکھا جائے، اور ہر مصیبت و خیر کو اسی کی مشیت مانا جائے۔
صدقہ شریعت کا اہم رکن ہے جو ہر زمانے اور ہر مہینے میں باعثِ خیر و برکت ہے۔ صفر المظفر سے متعلق من گھڑت عقائد اور "تیرہ تیزی” جیسے توہمات سے اجتناب اور عوام میں شعور بیدار کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آخر میں حضرات انبیاء
1۔ انبیاء کرامؑ کی حکایت،صحابہ کرامؓ،
اولیاء اللہ کی سبق آموز حکایات پیش کرتے ہوئے بتلایا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ایک دن سمندر کے کنارے بیٹھے تھے کہ ایک چیونٹی کو ایک دانہ گندم لیے دیکھا۔ وہ چیونٹی پانی کی طرف گئی اور اچانک ایک مینڈک آیا، چیونٹی کو منہ میں لے کر پانی میں غوطہ لگا گیا۔ کچھ دیر بعد واپس آیا اور چیونٹی باہر آ گئی۔ حضرت سلیمانؑ نے پوچھا: "یہ کیا معاملہ ہے؟”
چیونٹی نے کہا: "پانی کے اندر ایک اللہ کا بندہ ہے جو ہمیشہ عبادت کرتا ہے۔ اللہ نے مجھے اس کی روزی پہنچانے کا کام دیا ہے، میں روزانہ ایک دانہ لے کر اس کے پاس جاتی ہوں۔”
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ صدقہ و رزق پہنچانے کا کام اللہ کے انبیاء و اولیاء کے نزدیک بھی بہت قیمتی ہے۔
2۔ صحابہ کرامؓ کی حکایت
حضرت عثمان غنیؓ کے زمانے میں مدینہ منورہ میں سخت قحط پڑ گیا، پانی کی شدید قلت ہو گئی۔ ایک یہودی کے پاس ایک کنواں تھا جس سے وہ پانی بیچتا تھا۔ حضرت عثمانؓ نے وہ کنواں خرید کر اعلان کر دیا:
> "آج سے یہ کنواں اللہ کے بندوں کے لیے مفت ہے۔”
یہ انفاق فی سبیل اللہ کی ایسی مثال ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔
3۔ اولیاء اللہ کی حکایت
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے پاس ایک شخص فریاد لے کر آیا کہ گھر میں فاقہ ہے۔ آپؒ نے اپنے پاس موجود تمام کپڑے اور سونے کے سکے اسے دے دیے۔ مریدوں نے عرض کیا: "حضور! آپ نے تو اپنا سب کچھ دے دیا۔” آپؒ نے فرمایا:
> "یہ سب کچھ میرا کب تھا؟ یہ تو اللہ کی امانت تھی، آج اس کا مستحق مل گیا۔”
ان واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ صدقہ محض مال دینے کا نام نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لیے ایثار، قربانی اور بھلائی کا رویہ ہے۔ انبیاء کرامؑ نے اسے عملی زندگی میں اپنایا، صحابہ کرامؓ نے اسے دین کی خدمت کا ذریعہ بنایا اور اولیاء اللہ نے اسے قربِ الٰہی کا سب سے قریبی راستہ قرار دیا۔