دوسروں کا دل رکھنے اور خوشی بانٹنے کے اثرات”زیر عنوان مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

"دوسروں کا دل رکھنے اور خوشی بانٹنے کے اثرات”زیر عنوان مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد 10آگسٹ (پریس ریلیز ) چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آج وہ صدر دفتر بنجارہلزروڑنمبر12پرمنعقدہ فکری نشست بعنوان، "دوسروں کا دل رکھنے اور خوشی بانٹنے کے اثرات”سے خطاب کرتے ہوئے بتلایا کہ انسانی معاشرت کی خوبصورتی اس میں ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھیں، ان کی خوشیوں میں شریک ہوں اور غم کے وقت سہارا بنیں۔ کسی کا دل رکھنے اور اسے خوش کرنے کا عمل محض ایک اخلاقی رویہ نہیں بلکہ ایک سماجی و نفسیاتی ضرورت بھی ہے۔اسلام کی تعلیمات میں دوسروں کے دل خوش کرنے کو ایک عظیم نیکی قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "تمہارے سب سے بہتر وہ ہیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔”ایک اور حدیث میں ہے:
> "اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کسی مومن کو خوشی دینا ہے۔(طبرانی)
یہ تعلیمات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ دل رکھنے اور خوشی دینے کا عمل محض ایک سماجی رسم نہیں بلکہ عبادت کے درجے میں شمار ہوتا ہے۔
جدید تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جب انسان دوسروں کو خوش کرتا ہے، تو اس کے اپنے دماغ میں اینڈورفنز اور ڈوپامائن جیسے خوشی کے ہارمونز خارج ہوتے ہیں، جو ذہنی سکون اور خوشی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ اس کے اثرات درج ذیل ہیں:
1. صحت میں بہتری – خوش رہنے سے قوتِ مدافعت بڑھتی ہے۔
2. کام میں لگن – مثبت جذبات توانائی اور کارکردگی میں اضافہ کرتے ہیں۔
3. تعلقات مضبوط ہونا – محبت و خلوص سے اعتماد اور قربت پیدا ہوتی ہے۔
4. ذہنی دباؤ میں کمی – خوش اخلاقی اور مسکراہٹ تناؤ کو کم کرتی ہے۔
ایک خوش مزاج اور دل رکھنے والا انسان اپنے گھر، دفتر اور معاشرت میں مثبت ماحول پیدا کرتا ہے۔ اس کا رویہ دوسروں کے لئے تحریک اور امید کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب ہم کسی کو حوصلہ دیتے ہیں، تعریف کرتے ہیں یا محض ایک مسکراہٹ پیش کرتے ہیں، تو یہ عمل ایک سلسلہ وار مثبت ردِعمل پیدا کرتا ہے جو معاشرے میں خوشی کا دائرہ وسیع کرتا ہے۔
دوسروں کا دل رکھنا اور انہیں خوش کرنا نہ صرف دینی نقطۂ نظر سے باعثِ اجر ہے بلکہ سائنسی طور پر بھی صحت، توانائی اور بہتر تعلقات کے لئے ضروری ہے۔ آج کے دور میں جب مایوسی اور تناؤ عام ہیں، ہمیں اپنے رویوں میں نرمی، محبت اور خوش اخلاقی کو اپنانا ہوگا۔ یاد رکھیں، ایک میٹھی بات یا دل جوئی کا چھوٹا سا عمل بھی کسی کی زندگی بدل سکتا ہے۔
میں سمجھ گیا — آپ چاہتے ہیں کہ اس پریس نوٹ میں انبیاء کرام، صحابہ کرام اور اولیاء اللہ کی ایسی حکایات بھی شامل ہوں جو دوسروں کو خوش رکھنے اور دل جوئی کے عمل کو واضح کریں، تاکہ مضمون مزید روحانی اور مضبوط ہو جائے۔انھوں نے حضرات انبیاء کرام صحابہ کرام واولیاء کرام کا اسوہ پیش کرتے ہوئے بتلایا کہ
تمام انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں میں دوسروں کا دل رکھنے اور ان کو خوش کرنے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
حضرت محمد ﷺ نے کبھی بھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ ایک بار ایک صحابی ﷺ کے پاس کچھ نہ تھا مگر آپ نے خوش کلامی سے ان کے دل کو مطمئن کیا اور دعا دی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام مریضوں کو شفا دیتے وقت نہ صرف جسمانی علاج کرتے بلکہ ان کے دلوں کو بھی حوصلہ اور امید دیتے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کی غلطیوں کو معاف کر کے ان کے دل کو خوشی اور سکون عطا کیا۔صحابہ کرام کی مثالیں
حضرت ابو بکر صدیقؓ یتیموں اور بیواؤں کی مدد اس طرح کرتے کہ ان کو اپنی عزتِ نفس کا احساس بھی باقی رہتا۔
حضرت عمر فاروقؓ راتوں کو بھوکے اور ضرورت مند خاندانوں کے گھر آٹا اور کھانا پہنچاتے مگر اپنا نام ظاہر نہ کرتے تاکہ ان کا دل ٹوٹنے نہ پائے۔
اولیاء اللہ و صالحین کا طرزِ عمل
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے دروازے پر آنے والا ہر شخص کھانا اور عزت پاتا، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا ذات سے تعلق رکھتا ہو۔
حضرت عبدالقادر جیلانیؒ اپنی مجلس میں آنے والے ہر شخص کو مسکراہٹ اور محبت سے خوش کرتے، اور نصیحت میں نرمی کو ترجیح دیتے۔
سائنسی و نفسیاتی پہلو
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دوسروں کو خوش کرنے سے دماغ میں ڈوپامائن اور اینڈورفنز پیدا ہوتے ہیں جو خوشی، سکون اور صحت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس کے فوائد میں شامل ہیں:
1. ذہنی دباؤ میں کمی
2. قوتِ مدافعت میں اضافہ
3. تعلقات کی مضبوطی
4. کام کرنے کی صلاحیت میں بہتری
دوسروں کو خوش رکھنا اور ان کا دل جوئی کرنا ایک ایسا عمل ہے جسے انبیاء، صحابہ اور اولیاء نے اپنی زندگیوں میں عملاً اختیار کیا۔ یہ عمل نہ صرف ہمیں اللہ کے قریب کرتا ہے بلکہ معاشرت میں محبت، بھائی چارہ اور اعتماد کو بڑھاتا ہے۔