اویس سنبھلی کی خاکہ نگاری یادیں باتیں چہرے لوگ – تعارف و تبصرہ

سید سرفراز احمد
نام سے ہی کتاب کی خصوصیت ظاہر ہورہی ہے کہ اس میں اہم شخصیات کی یادوں کے تذکرے اور کچھ اہم شخصیات پر باتیں ہورہی ہیں۔عموماً شخصیات پر جو کتابیں منظر عام پر آتی ہیں بیش تر کتابیں ایک ہی شخص پر موجود ہوتی ہیں۔لیکن اس انوکھی کتاب میں بہت ہی اہم شخصیات کو ایک البم میں محفوظ کرنے کا کام کیا گیا۔شخصیات اور ان کے کارناموں کو یکجا کرنے کا کام بہت اہمیت کا حامل ہے۔وہ اس لیئے کہ ہماری آنے والی نسلوں کا یہ وہ عظیم سرمایہ ہے۔جس سے وہ مستفید ہوسکتے ہیں۔نہ صرف مستفید بلکہ شخصیات کا مطالعہ کرنے سے خود کی شخصیت سنوارنے کا زرین موقع بھی ملتا ہے۔
شخصیات سے متاثر ہونا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔لیکن اس کو خاکہ نگاری میں پیش کرنا یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔جس کو بھی یہ صلاحیت اللہ نے عطا کی ہے یا جس نے بھی یہ کوششیں کی ہے اس کا آگے کا راستہ بننا طئے ہے۔محمد اویس سنبھلی ان ہی میں سے ایک ہے۔محمد اویس سنبھلی کا خاص موضوع شخصیات ہی ہے۔وہ خاکہ نگاری کو بہترین اسلوب میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔محمد اویس سنبھلی کا میدان پیشہ وارانہ طور پر صحافت نہیں ہے۔
لیکن اس میدان میں آپ کی دل چسپی نے چار چاند لگادیئے۔آپ کی تصنیف کا خاص وصف مجھے جو نظر آیا وہ یہ کہ اویس سنبھلی کسی بھی موضوع یا شخص پر ویسا ہی قلم بند کرتے ہیں جیسے وہ نظر آتے ہیں۔بلکہ مبالغہ آرائی سے مکمل گریز بھی کرتے ہیں۔ویسے اویس سنبھلی سے بالمشافہ ہماری ملاقات نہیں ہوئی لیکن علمی و قلمی رفیق کی حیثیت سے سوشیل میڈیا نے ہمیں ایک بہترین قلم کار سے ملادیا۔آپ سے بات کرکے ایسا لگتا ہے کہ ہماری ملاقات برسوں پرانی ہے۔ہمیں لگتا ہے کہ اویس سنبھلی کے اندر شخصیات پر لکھنے کی خداد داد صلاحتیں موجود ہیں۔
جب بھی وہ شخصیات پر لکھتے ہیں تو نہ صرف لکھتے ہیں بلکہ وہ مکمل حق بھی ادا کرتے ہیں۔آپ کے مضامین ہو یا کتابیں قارئین پر مثبت اثر انداز ہوتی ہیں۔آپ نے مشہور و معروف صحافی "حفیظ نعمانی ایک عہد ایک تاریخ” جیسی مشہور کتاب کی بہترین تصنیف کی۔حفیظ نعمانی سے اویس سنبھلی کا دوگنا رشتہ استوار ہے۔چونکہ رشتے میں وہ آپ کے حقیقی ماموں جان ہوتے تھے۔اور ان ہی کی معیت میں آپ کو اردو ادب اور صحافت کے شہسوار بننے کا موقع ملا۔اور آج وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوۓ اردو ادب و صحافت کے بڑے بزرگوں کی صف میں کھڑے ہوگئے۔
یادیں باتیں چہرے لوگ اویس سنبھلی کی یہ کتاب اپریل 2025 میں نعمانی پرنٹنگ پریس لکھنو سے شائع ہوئی۔ابھی فی الحال اس کتاب نے ادبی و صحافتی حلقوں میں دھوم مچا رکھی ہے۔کیونکہ میں نے کئی ایک ناقدین کو اس پر تبصرہ کرتے ہوۓ دیکھا اور پڑھا ہے۔اس کتاب کو اویس سنبھلی نے مشہور نقاد و ادیب حقانی القاسمی صاحب کے نام موسوم کیا ہے۔اس کتاب کا حرف آغاز مشہور صحافی معصوم مرادآبادی نے لکھا ہے۔اور پیش لفظ ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر شکیل رشید صاحب نے لکھا ہے۔یہ کتاب اویس سنبھلی کے مضامین کا دوسرا مجموعہ ہے۔جس میں پچیس شخصیات کا تذکرہ موجود ہے۔جن سے اویس سنبھلی کے گہرے مراسم تھے۔یا ان کی صحبتوں کا انھیں موقع ملا ہو۔
اس کتاب کو دو باب میں تقسیم کیا گیا۔پہلے باب میں "خراج عقیدت” کے طور پر پندرہ شخصیات کے تذکرے موجود ہیں۔جن میں عرفان عباسی،جفیظ نعمانی،پروفیسر شارب ردولوی،ایچ ایم یٰسین،مقصود الہٰی شیخ،انور ندیم،سید ضیاء الحسن،سعادت علی صدیقی،رمن لال اگروال،سید محمد حسان نگرامی،منور رانا،امین الدین شجاع الدین،مشرف عالم ذوقی،وقار رضوی،اور ڈاکٹر فرقان سنبھلی شامل ہیں۔
دوسرے باب کو "چراغ روشن ہیں”کا نام دیا گیا۔اس باب میں دس شخصیات کے تذکرے ہیں۔جن میں احمد ابراہیم علوی،ڈاکٹر رضیہ حامد،ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی،ڈاکٹر صبیحہ انور،ڈاکٹر کشور جہاں زیدی،حکیم وسیم احمد اعظمی،معصوم مراد آبادی،اقبال اشہر،رضوان فاروقی،اور ڈاکٹر عمیر منظر شامل ہیں۔
بزرگوں کی صحبت اختیار کرنا اور ان سے سیکھنا اور مختلیف تجربات کو غور سے سننا یہ سب اویس سنبھلی کی اپنی عملی زندگی کا حصہ ہے۔جو نوجوان قلم کاروں کے لیئے بہترین نمونہ ہے۔خراج عقیدت میں عرفان عباسی کا جو عظیم کارنامہ اس کتاب میں درج ہے وہ یہ کہ انھوں نے اترپردیش کے ہزاروں شعراء کی حالات زندگی کو جمع کرکے ایک عظیم کام انجام دیا۔ورنہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ان شعراء کو یوں ہی فراموش کردیا جاتا ہے۔
حفیظ نعمانی جیسی شخصیت کا خلاء پر ہونا مشکل ضرور ہے۔لیکن نہ ممکن نہیں ہے۔آپ کے حوالے سے جو اس کتاب میں خاکہ نگاری کی گئی ہے۔کہ بڑے بڑے سیاسی قائدین کے نزدیک بھی آپ کی بات کا وزن ہوتا تھا۔اس سے موجودہ صحافیوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ آپ اگر غیر جانب داری کا مظاہرہ کریں گے اور شفاف طریقے سے رعب کے ساتھ صحافتی زندگی گذاریں تو آپ کو بھی وہ مقام حاصل ہوسکتا ہے جو مقام حفیظ نعمانی صاحب کو حاصل ہوا تھا۔حفیظ نعمانی کے متعلق اویس سنبھلی نے بہت سے تجربات کو اس کتاب میں شامل کیا۔جو پڑھنے اور سیکھنے کے لائق ہے۔
منور رانا کا خاکہ اس کتاب میں بہترین ڈھنگ سے کھینچا گیا۔منور رانا کی شخصیت سے کون واقف نہیں ہوگا۔آپ کی آواز میں ایک کشش اور ہر اہم مسئلہ پر اپنی راۓ پوری زمہ داری سے رکھنے کا ہنر جانتے تھے۔منور رانا نہ صرف ایک شاعر تھے۔ بلکہ ایک نثر نگار بھی تھے۔اویس سنبھلی منور رانا کی نثر کے متعلق لکھتے ہیں۔منور رانا کی نثر مجھے ان کی شاعری سے ذیادہ پسند ہے۔وہ اس لیئے کہ ان کی نثر آب شار کی طرح ہے۔مزید اویس سنبھلی منور رانا سے اپنی ملاقات اور ذکر خیر کرتے ہوۓ پورا پورا حق ادا کیا۔
اس کتاب کے دوسرے باب کا عنوان چراغ روشن ہیں میں مجھے احمد ابراہیم علوی کے متعلق جو باتیں لکھی گئی وہ بہت اہم ہیں۔کیونکہ مصنف نے علوی صاحب کی شخصیت کو بتانے میں صرف مثبت پہلوؤں پر ہی گفتگو نہیں کی۔بلکہ ان کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں پر اچھی خاصی گتگو کی۔مجھے علوی صاحب کی شخصیت میں جو مثبت پہلو نظر آیا وہ یہ کہ ایک تو علوی صاحب اویس سنبھلی کی ہمیشہ ہمت افزائی کرتے ہیں۔اور ان کے کئی ایک مراسلے شائع کیئے۔
دوسری اہم بات یہ لکھی گئی کہ جب اردو اکادمی میں جاری بد عنوانیوں کے خلاف رضوان فاروقی اور اویس سنبھلی نے مراسلہ لکھنا شروع کیا تو علوی صاحب نے مسلسل ایک ماہ تک مراسلوں کو شائع کرتے ہوۓ اس بحث کو جاری رکھا۔کیونکہ آج کے نوجوان قلم کاروں کی ہمت افزائی کرنا بہت اہم کام ہے۔اور یہ کام تجربہ کار و قابل افراد کا ہی ہوتا ہے۔لیکن ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔حوصلہ افزائی نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان نسل اردو ادب ہو یا اردو صحافت سے بہت دور جارہی ہے۔وقت ہے کہ ان موتیوں کو سمیٹ لیں۔
دوسرا باب جو چراغ روشن ہیں کے نام سے ہے۔اس میں ہر شخص کا مطالعہ غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ان اہم شخصیات میں خواتین کے تذکرے بھی شامل ہیں۔لیکن ان میں سب سے نمایاں چہرہ معصوم مرادآبادی کا ہے۔شائد ہی جنھیں کوئی نہ جانتا ہو۔معصوم مرادآبادی بے باک قلم کار ہیں۔آپ کا ہر ہفتہ ایک تجزیاتی مضمون شائع ہوتا ہے۔جس میں وہ سلگتے مسائل پر اپنی بے باک راۓ رکھتے ہیں۔اس کتاب میں وہ خود اپنے بارے میں بتاتے ہوۓ کہہ رہے ہیں کہ اردو صحافت میرے مشغلے سے ذیادہ عشق کے درجے میں ہے۔کبھی اپنے قلم اور ضمیر کا سودا نہیں کیا۔آج بھی وہی لکھتا ہوں جسے صحیح سمجھتا ہوں۔خواہ کوئی راضی ہو یا ناراض۔کیونکہ میں نے اپنے بڑوں سے یہی سیکھا ہے۔اس کتاب میں معصوم مرادآبادی کی حالات زندگی اور صحافتی زندگی کے بہت سے تجربات شامل ہیں۔جو نوجوان قلم کار یا صحافت میں خدمات انجام دینے والے نوجوانوں کے لیئے مشعل راہ ثابت ہوسکتی ہے۔
اویس سنبھلی نے زمینی تجربہ رکھنے والی شخصیتوں کو ایک جگہ محفوظ کرکے ہمیں ایک قیمتی تحفہ عنایت فرمایا ہے۔یہ کتاب نہ صرف ایک کتاب بلکہ احساسات و افکار کی ایک سمت بھی طئے کرتی ہے۔انسان کی سوچ کو وسعت اور مثبت راستے کی طرف آگے بڑھاتی ہے۔نوجوان قلم کاروں،اردو ادب و صحافتی زندگی میں نئے قدم جمانے والوں کے لیئے یہ کتاب نہیں بلکہ انمول خزانہ ہے۔جن کے آگے کے مراحل کے لیئے رہ نما ثابت ہوسکتی ہے۔لہذا نوجوان بالخصوص صحافی و ادبی نوجوان ضرور اس کتاب کا مطالعہ کریں۔کتاب حاصل کرنے کے لیئے اویس سنبھلی سے اس نمبر پر 7905636448 ربط بھی قائم کیا جاسکتا ہے۔