عربی زبان اور عرب ممالک

کے این واصف
دنیا میں ویسے تو 22 ممالک میں جہاں کی سرکاری زبان عربی ہے۔ لیکن ان میں سے 6 خلیجی ممالک ایسے ہیں جہاں پٹرول کی دولت کے بعد برائے صغیر سے خصوصاُ اور دنیا کے دیگر ممالک سے لوگوں کی ایک بھاری تعداد بغر ملازمت یا تجارت خلیجی ممالک کا رخ کیا۔ 1970 کی دہائی سے اب تک خلیجی ممالک میں کروڑوں کی تعداد مین خلیجی ممالک کو غیر ملکی آئے اور طویل عرصہ گزار کرواپس چلے گئے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
کروڑوں کی تعداد میں جن لوگون نے یہاں ملازمت یا بزنس کیا ان کی اکثریت نے حسب ضرورت کم از کم عربی بول چال تو سیکھی۔ سعودی عرب گلف کا سب سے بڑا ملک ہے۔ لہٰذا یہاں سب سے بڑی تعداد میں غیر ملکی جن میں بڑی تعداد غیر عرب افراد کی رہی ملازمت کے لئے آئے۔ سعودی عرب میں خود میں نے تین دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزارا۔
دنیا کے کچھ بڑے اور ترقی یافتہ ممالک مثلاُ چین، روس، جرمنی، فرانس وغیرہ نے انگریزی کی بجائے اپنے ملک کی زبان کو ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان قائم رکھا۔ نہ صرف یہ بلکہ ان ممالک میں ملازمت یا تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آنے والے غیر ملکیوں کو مقامی زبان سیکھنے کا پابند بھی کیا۔
لیکن خلیجی ممالک میں غیر عرب غیر ملکیوں پر اس طرح کا کوئی لزوم نہیں رہا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو آج دنیا کے سنکڑون ملکوں میں کروڑوں لوگ عربی سے واقف ہوتے۔ خلیجی ممالک میں اگر غیر عرب افراد کو عربی زبان سیکھنے کی ترغیب دی جاتی یا ان پر عربی سیکھنا لازم قرار دیا جاتا تو آج دنیا میں کروڑوں افراد عربی سے واقف ہوتے۔ نیز سرکاری سطح پر عربی زبان سکھانے کا اہتمام کیا جاتا تو لاکھوں مقامی افراد کو بحیثیت عربی استاد کی ملازمت کا موقع بھی حاصل ہوتا۔
بتاخیر سہی سعودی عرب میں اب عربی زبان کی ترویج کے سلسلہ میں ایک نیا پروگرام کی ابتداء کی گئی ہے جو کاروباری افراد اور اسٹارٹ اپس کی مدد کرتا ہے۔ عربی زبان کے لیے نئے پروگرام ’ “انوویشن ایکسیلیریٹر” نے ، جس کا انتظام عربی زبان کے لیے کنگ سلمان گلوبل اکیڈمی کرتی ہے، “اسٹارٹ اپس” اور “اونٹرا پرنیئرز” کو بااختیار بنانے میں مدد فراہم کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ بات تنظیم کی جانب سے گزشتہ روز ایک اختتامی تقریب میں کہی گئی۔اکیڈمی کے سیکریٹری جنرل عبداللہ الوشمی نے کہا کہ “دا ایکسیلیریٹر” نے تکنیکی اختراع میں تعاون کیا اور تخلیقی آئیڈیاز کو ایسے قابلِ عمل منصوبوں میں تبدیل کرنے میں مدد دی جن میں نمُو اور توسیع کی گنجائش موجود ہے۔“دا ایکسیلیریٹر”، اکیڈمی کے ممتاز اور نمایاں انیشیٹیوز میں سے ایک ہے جس کا وژن، عربی زبان کی ترقی کے لیے تکنیکی منصوبوں کے ایک مربوط نظام کی تعمیر ہے۔
سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا اکیڈمی ایسے کئی اداروں کے ساتھ باہمی شراکت داریاں قائم کرنے کے لیے سرگرم ہے جو جدت اور ٹیکنالوجی کو سہارا دیتے ہیں، تاکہ یہ پروگرام موثر ثابت ہو اور ایک جامع ترقیاتی ماحول کو سامنے لائے۔“دا ایکسیلیریٹر” پروجیکٹ، اکیڈمی کے تعلیمی اور ڈیجیٹل عربی مواد کو وسعت دینے کے انیشی ایٹیوز میں سے ایک ہے۔سعد القحطانی نے، جو اکیڈمی میں تعلیمی پروگرام کے شعبے کے ڈائریکٹر ہیں، کہا اس پروجیکٹ کے ذریعے ہم نے بہت سے رہنما انیشی ایٹیوز دیکھے ہیں جو قدرتی ذرائع کو بروئے کار لاتے ہیں، ماحول کے مطابق ڈھلتے ہیں۔
ان کی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے پسِ پشت ایک خدمت ہے جو عربی زبان، اس کے علم، آرٹ، اس کی تدریس اور اس زبان کو سیکھنے کے لیے وقف ہے۔انہوں نے زور دے کر یہ بات کہی کہ جدت اور اختراع کے لیے عربی زبان کی ترویج از حد ضروری ہے۔اس ایونٹ کی اختتامی تقریب میں تمام منصوبوں کے بارے میں ایک تفصیلی پریزینٹیشن بھی دی گئی جس میں کئی “اونٹرا پرنیئر” کو بہت سے ماہرین اور سرمایہ کاروں کی موجودگی میں اعزازات سے نواز گیا۔
مگر اس نیا انیشیٹو کا دائرہ محدود ہے۔ اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ گلف مین سعودی عرب کم از کم اب بھی عربی زبان مقبول عام کرنے کے لئے مملکت میں کام کرنے والون کو سرکاری سطح پر جذوقتی اسکولز کے ذریعہ عربی سکھنانے کا اہتمام کرے لاکھون غیر عرب غیر ملکی عربی زبان سکھائی جاسکتی ہے۔ اور عربی زبان دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل سکتی ہے۔