مسجد اقصیٰ اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم کارنامہ،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

مسجد اقصیٰ اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم کارنامہ،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
حیدرآباد 20آگسٹ (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ اسلامی تاریخ میں اگر عدل، شجاعت، فراست اور دینی غیرت کا کوئی بے مثال نام لیا جائے تو وہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ ہے، جو فلسطین کے دارالحکومت القدس (بیت المقدس) کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔ یورپی زبانوں میں القدس کو یروشلم کہا جاتا ہے۔ یہ شہر بلند پہاڑیوں پر آباد ہے، انہی میں سے ایک پہاڑی "کوہِ صیہون” کہلاتی ہے جس پر مسجد اقصیٰ اور مشہور "گنبد الصخرہ” واقع ہیں۔
مسجد اقصیٰ یروشلم کی سب سے بڑی اور تاریخی مسجد ہے جس میں بیک وقت تقریباً پانچ ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں، جبکہ اس کے وسیع صحن میں ہزاروں افراد کی گنجائش موجود ہے۔مسجد اقصیٰ ایک ایسا مقدس مقام ہے جسے مسلمان، عیسائی اور یہودی تینوں غیر معمولی تقدس کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مقام تاریخ کے ہر دور میں سیاسی و جنگی مہمات کا مرکز بنا رہا۔قرآن مجید میں ارشاد ہے:”بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور سارے جہان کے لئے ہدایت ہے۔”(آل عمران: 96)اسی طرح بخاری شریف میں حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"سب سے پہلی مسجد مسجد حرام بنی، اس کے بعد مسجد اقصیٰ، اور ان کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہے۔”(بخاری، حدیث: 3366)
صلیبی جنگوں کے زمانے میں مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس عیسائیوں کے قبضے میں چلے گئے تھے۔ اس نازک دور میں اللہ نے امت کو ایک عظیم مجاہد اور رہنما عطا فرمایا، جنہیں تاریخ حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے قبلۂ اول کی آزادی کے لیے تقریباً 16 بڑی جنگیں لڑی اور بالآخر 1187ء میں معرکہ حطین میں صلیبی فوجوں کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس کو آزاد کروایا۔بیت المقدس کی فتح کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسجد اقصیٰ کو اس کی اصل حالت میں بحال کیا، صلیبی دور کے تمام آثار و نقوش مٹا دیے اور اس مقدس مقام کو مسلمانوں کے لیے دوبارہ مرکزِ عبادت بنایا۔
یہ عظیم فتح صرف عسکری کامیابی نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے لیے روحانی فتح تھی، جس نے مسلمانوں کے دلوں میں نئی زندگی اور حوصلہ پیدا کیا۔
مسجد اقصی کو عیسائیوں کے اس قبضہ سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے آزاد کرایا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے قبلۂ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں۔ اور بالآخر پیہم معرکہ آرائیوں کے بعد سن 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کروالیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسجد کو دوبارہ اپنی پہلی حالت میں تعمیر کیا اور عیسائیوں کے تمام نشانات اور توسیع کا خاتمہ کیا۔ اس کے بعد مسجد طویل عرصہ مسلمانوں کے ماتحت رہی
اورایک روایت میں ہے کہ مسجد بیت الحرام کو ابن آدم کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا۔ اس قول کو مجاہدحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ : بیت اللہ کو زمین سے دو ہزار سال قبل بنایا گیا، پھر وہیں سے زمین پھیلائی‘‘ ’’ثم دُحِیَتِ الأرضُ منه‘‘ (المستدرک : 2-85)
ان دونوں روایات کو حوالہ بناتے ہوئے امام قرطبی فرماتے ہیں کہ ان اقوال سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سیدناابراہیم علیہ السلام بیت الحرام کے اور سیدناسلیمان علیہ السلام مسجدِ اقصیٰ کے مجدّد ہیں، نہ کہ مؤسس یعنی بنیاد رکھنے والے۔ (الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل ص: 8-10)
مسجد اقصیٰ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں بیک وقت پانچ ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں، جبکہ مسجد کا صحن ایک وسیع احاطے پر مشتمل ہے جو ہزاروں افراد کے اجتماع کی گنجائش رکھتا ہے
تاریخ میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ادوار کے بارے میں چار مختلف اقوال مقبول ہیں:
پہلا قول یہ ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کی۔
دوسرا قول یہ ہے کہ سیدناآدم علیہ السلام نے سب سے پہلے تعمیرکی۔
تیسرا قول یہ ہے کہ سیدناسام بن نوح علیہ السلام سب سے پہلے تعمیر کرنے والے ہیں۔
اور چوتھا قول یہ ہے کہ سیدنا داؤد اور سلیمان علیہما السلام پہلے تعمیر کرنے والے ہیں۔
ان تمام روایات کو دلیل بنا کر علامہ احمد بن عبد الواحد المقدسی فرماتے ہیں کہ ان سب روایتوں سے یہ ترتیب اخذ کی جا سکتی ہے کہ مسجد اقصی کو سب سے پہلے فرشتوں نے، پھر سیدناآدم علیہ السلام نے، پھر سیدناسام بن نوح علیہ السلام نے اور پھر سیدناداؤد وسلیمان علیہما السلام نے بالترتیب تعمیر کیا ہو۔ ((الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل ص:8-10) حضرت سلیمان علیہ سلام کی جنات کے ذریعے تعمیر شدہ عبادت گاہ کو ’’ہیکل سلیمان‘‘ یا ’’Solomon temple‘‘ کہا جاتا ہے جو آج بھی معروف ہے۔
سرزمین انبیاء، فلسطین میں واقع مسجد اقصی کے ساتھ انبیاء بنی اسرائیل کی خاص نسبت کی وجہ سے یہ مقام ہر دور میں اہمیت کا حامل رہا۔ اسی مذہبی لگاؤ اور مستقبل میں اس سے منسوب پیش گوئیوں کی وجہ سے یہ خطہ ہمیشہ سے تنازعات سے دو چار رہا ہے جس کی بنیادی وجہ مسجد اقصی کا قبضہ حاصل کرنا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ مسجد اقصی کی نسبت، تعلق اور اس کا تقدس اسی طرح ہے جیسے کہ مسجد حرام کا۔ جسکی وجہ یہ ہے کہ مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے اور ہجرت مدینہ کے بعد سولہ سترہ ماہ تک مسلمان اسی کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے تاہم آقا کریم ﷺ کی منشا پر اللہ رب العزت نے تحویل قبلہ کا حکم دیا اور مسجد حرام کو مسلمانوں کا قبلہ مقرر فرما دیا۔ اور سفر معراج میں آپ ﷺ نے اسی مقام پر تمام انبیاء کی امامت کروائی اور پھر یہاں سے عرش معلی کی طرف تشریف لے گئے۔
تاریخ اسلام میں مسجد اقصی کو سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فتح کیا۔ بعثت محمدی ﷺ کے وقت یہ خطہ رومی سلطنت کی زیر قبضہ تھا جو کہ اس وقت کی طاقتور ترین سلطنت تھی تاہم آپ ﷺ نے مسجد اقصی کی فتح کے خوشخبری اسی وقت سنا دی تھی اور اس کو قرب قیامت کی ایک اہم نشانی بھی قرار دیا۔ آپ ﷺ نے اپنے زمانے میں رومی سلطنت کی فتح کے لئے ایک لشکر تشکیل فرمایا مگر اس لشکر کی روانگی سے قبل آپ ﷺ اس جہان فانی سے پردہ فرما گئے۔ اس سلسلے کوحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جاری رکھا اور اس لشکر کو محاز پر روانہ فرمایا تاہم رومیوں کے خلاف یہ مہم طویل عرصہ جاری رہی حتی کہ 638ء حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور یروشلم مسلمانوں کے زیر قبضہ آگیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر مسجد اقصی تشریف لائے اور صحابہ کرام کے ساتھ ملُکر مسجد کو صاف کیا اور اس کے احاطہ کے اندر جنوبی جانب نماز پڑھنے کی ایک جگہ مخصوص فرمائی۔ یہ جگہ مسجد اقصی کے احاطہ میں ایک اونچی چٹان نما جگہ جسے صخرہ کہا جاتا تھا، کی اگلی جانب بنائی گئ۔ بعد ازاں اسی جگہ پر لکڑی کی ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ 688ء میں اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے صخرہ کے اوپر ایک سنہری رنگ کا شان دار گنبد تعمیر کرایا جو ‘قبۃ الصخرہ’ (Dome of Rock) کے نام سے معروف ہے اور آج بھی مسجد اقصی کے احاطہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
مسجد اقصی عباسی دور تک مسلمانوں کے ماتحت رہی۔ مگر آپس کی خانہ جنگیوں اور سیاسی انتشار کی وجہ عباسی حکومت کمزور پڑنے لگی تو صلیبیوں نے ایک دفع پھر مسجد اقصی پر قبضہ حاصل کرنے لئے سازشیں شروع کر دی۔ اسی دوران فاطمی حکومت نے اپنے استحکام اور سلجوقیوں کے خاتمے کے لئے صلیبیوں سے مدد طلب کی اور اس کے عوض انھیں بہت سے مراعات فراہم کی جن میں ایک مسجد اقصی میں داخلے کی اجازت بھی شامل تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور یروشلم مسلمانوں کے زیر قبضہ آگیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر مسجد اقصی تشریف لائے اور صحابہ کرام کے ساتھ مل کر مسجد کو صاف کیا اور اس کے احاطہ کے اندر جنوبی جانب نماز پڑھنے کی ایک جگہ مخصوص فرمائی