تربیتِ اولاداسوۂ مصطفی ﷺ کی روشنی میں،چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

تربیتِ اولاداسوۂ مصطفی ﷺ کی روشنی میں،چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
حیدرآباد 26آگسٹ (پریس ریلیز ) چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے ماہ ربیع الاول کی دوسری نشست تربیتِ اولاد: اسوۂ مصطفی ﷺ کی روشنی میں دوران گفتگو اظہار خیال کرتے ہوئے بتلایا کہ اسوۂ مصطفی ﷺ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ بچوں کی تربیت محض دنیاوی کامیابی کے لیے نہ ہو، بلکہ ان کی شخصیت کو دینی، اخلاقی اور عملی اعتبار سے مضبوط بنانا اصل مقصد ہو۔ محبت، عملی نمونہ، دینی تعلیم، اخلاق کی پختگی اور نیک ماحول، یہی وہ ستون ہیں جن پر تربیت کا قصر قائم ہوتا ہے۔بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی عملی عبادات کا عادی بنایا جائے تاکہ بڑے ہو کر یہ آسان لگے۔بارگاہ مصطفی ﷺ سے تربیتِ اولاد کا جو لائحہ عمل میسر آتا ہے، کائنات کی کوئی شخصیت اس سے بہترین لائحہ عمل عطا نہیں کرسکتی۔ تربیتِ اولاد کے تناظر میں شاید ہی کوئی پہلو ایسا ہو جس کی طرف آقا علیہ السلام نے خود رہنمائی نہ فرمادی ہو۔ آپ ﷺ نے اس سلسلہ میں اپنا اسوۂ حسنہ عطا فرمایا کہ بچوں کے ساتھ جو رویہ اور سلوک مجھے اپناتا ہوا دیکھو، اس کی پیروی کرو۔ جس طرح حضور علیہ السلام کو اپنے دور کے بچوں کی فکر تھی، اسی طرح قیامت تک آنے والی نسلوں اور اولادوں کی فکر بھی آپ ﷺ کو دامن گیر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے متعدد فرامین کے ذریعے والدین اور معاشرے کو بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ فرمایا۔ ذیل میں اس سلسلہ میں آپ ﷺ کے چند فرامین درج کیے جاتے ہیں:،آقا علیہ السلام نے فرمایا:
اپنی اولاد کو تین خصلتیں سکھاؤ: اپنے حبیب مکرم ﷺ کی محبت، اہل بیت اطہار کی محبت اور قرأت القرآن۔اِس کا مطلب ہے کہ محبت ایک ایسی چیز ہےجو پڑھنے سےنہیں آتی بلکہ عمل کرکے سکھائی جاتی ہے۔ آج یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے ہمیں نبرد آزما ہونا ہوگا اور اپنی اولاد اور نئی نسل کو محبتِ مصطفی ﷺ اور محبتِ اہلِ بیتِ اطہار کے جام پلانے ہوں گے اور قرآن مجید سے محبت اور اس کی تعلیمات پر عمل کی ترغیب دینا ہوگی۔آقا علیہ السلام نے فرمایا:
’’اپنی اولاد کی تکریم کرو اور انھیں اچھے آداب سکھاؤ۔‘‘آقا علیہ السلام حکم دے رہے ہیں کہ اپنی اولاد کی عزت کرو جبکہ ہم آج تک صرف یہی سیکھتے آئے ہیں کہ بڑوں کا اکرام کرو۔ آقا علیہ السلام نے بڑوں کے علاوہ بچوں کی بھی عزت کرنے کی طرف رہنمائی فرمائی۔ اس فرمان سے سمجھانا یہ مقصود ہے کہ جو اپنی اولادوں کی عزت نہیں کرتا، کل اُن کی اولاد بھی کسی کی عزت نہیں کرے گی۔ آقا علیہ السلام نے تصور ہی تبدیل فرمادیا اور واضح کردیا کہ اگر اولاد کو عزت کرنے والا بنانا ہے تو پہلےاولاد کو عزت دو۔ یعنی پہلے اولاد کو عزت کے ساتھ بٹھاؤ، اُن کو اچھے الفاظ اور القاب کے ساتھ بلاؤ۔ اُنہیں صاحب اور بھائی کہہ کر بلانے سے ہماری عزت بڑھے گی، کم نہیں ہوگی۔حضور نبی اکرم ﷺ کی حکمت اور بصیرت ملاحظہ کریں کہ اگر بچے کو دس سال کی عمر تک بھی نماز کی عادت نہیں پڑی تو سرزنش کرو، اس لیے کہ دس سال میں جو شخصیت بن جاتی ہے، اب وہ کوئی بدل نہیں سکتا۔ سات سال کی عمر میں تو عادت بنانی ہے اور دس سال کی عمر میں پچھلی عادت کو توڑنا ہے۔ جب دس سال گزر گئے توپھر اُسے نمازی بنانے میں زیادہ مشکل ہوجاتی ہے۔آقا علیہ السلام نےاولادکو کھانے کے آداب بھی سکھائے کہ کھانا اور پینا کس طرح ہے۔ سید نا عمر بن سلمہ فرماتے ہیں کہ میں چھوٹا بچہ تھا اورآقا علیہ السلام کی بارگاہ میں بیٹھتا تھا۔ جب کوئی کھانے کا برتن آتا تھا تومیں اپنا ہاتھ اُس میں ڈالتا اور اسے چار وں سمت گھماتا رہتا تھا کہ اپنی مرضی کی چیز آجائے۔ آقا علیہ السلام نے بڑے پیار اور شفقت بھرے انداز میں فرمایاکہ بیٹے جب کھانا آجائےتو:
ایک روز سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آقا علیہ السلام نے اُن کا بوسہ لیا۔ اس وقت وہاں اقرع بن حابس التمیمی کھڑے تھے، وہ حیران ہو گئے کہ حضور علیہ السلام اپنے نواسے کو کس طرح چوم رہے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ یارسول اللہ! میرے تو دس بچے ہیں، میں نے تو آج تک کسی ایک کو بھی نہیں چوما اور آپ اپنے نواسے کو اس طرح چوم رہے ہیں۔ آپ ﷺ نےفرمایا:
جو رحم نہیں کرتا اُس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔
اسی طرح سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہ اور حسنین کریمین علیہما السلام سے آپ ﷺ کی محبت و شفقت اور اُن کی تربیت کے متعدد واقعات ہیں جو ہمیں اولاد کے ساتھ تعلق اور ان کی تعلیم و تربیت کے بارے میں رہنمائی عطا کرتے ہیں۔
ہم اپنی اولاد کی تربیت اگر اِس زاویہ سے بھی کر لیں کہ کل جب ہم اپنی قبروں میں چلے جائیں گے تو کوئی ہماری بخشش و مغفرت کے لیے دعا کرنے والا تو ہوگا۔ یہ زاویہ بھی تربیتِ اولاد کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں متحرک رکھے گا۔ اولاد نیکی اور خیرات کا عمل کرتی رہے تو اس کے اعمال بھی اس کے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتے ہیں۔مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آخر میں بتلایا کہ اللہ رب العزت ہمیں اپنی اولاد اور نئی نسلوں کو اسلامی تعلیمات سے بہرہ یاب کرنے، اُن کی علمی، فکری، اخلاقی اور روحانی تربیت کرنے اور انھیں دین و دنیا کی ہر جہت سے باادب بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ