جنرل نیوز

ماہ ربیع الاول کی تیسری نشست بعنوان تصرفات و اختیاراتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،سے مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا اظہار خیال

ماہ ربیع الاول کی تیسری نشست بعنوان تصرفات و اختیاراتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،سے مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا اظہار خیال

حیدرآباد 27آگسٹ (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے ماہ ربیع الاول شریف کی تیسری نشست بعنوان تصرفات و اختیاراتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،سے اظہار خیال کرتے ہوئے بتلایا کہ حضور پاک علیہِ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اقدس اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم نعمت اور کائنات کی رحمت ہے۔ آپ ﷺ کے اختیارات و تصرفات کا موضوع امت کے عقیدے کا نہایت اہم حصہ ہے۔ جملہ انبیاء کرام میں سے وہ ہستی جن کو تمام درجات میں سب پر بلند کردیا وہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، جن کے بارے میں ارشاد فرمایا:’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا‘‘۔(الانشراح:4)

پس ساری خلق اور ساری کائنات پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلند ہیں۔ اللہ کی خلق میں سے ہر شے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ سے نیچے ہے خواہ وہ عالم جمادات ہو یا عالم نباتات، عالم حیوانات ہو یا جنس و انس و ملائک، کائنات ارض و سماء کی ہر شے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلند ہیں اور ہر شے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہ صرف نیچے ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہے

وہ قدرت، اختیار اور اثرات جو اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو عطا فرمائے، تاکہ آپ دین کی تبلیغ، ہدایت کی تکمیل اور امت کی رہنمائی کے فرائض انجام دیں۔دوسرے مقام پر ارشاد ربانی ہے کہ

ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کیا۔

ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے وضاحت کریں۔

رسول جو تمہیں دے وہ لے لو، اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ۔

یہ آیات اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دین کی تفہیم، تشریح اور امت پر امر و نہی کا اختیار دیا گیا۔

احادیث سے دلائل

1. حدیثِ شفاعت

قیامت کے دن سب انبیاء شفاعت سے معذرت کریں گے، لیکن نبی اکرم ﷺ کو شفاعت کبریٰ کا مقام عطا ہوگا۔(صحیح بخاری، کتاب الرقاق)

"مجھے ہر چیز کی کنجیاں دی گئی ہیں۔”

(مسند احمد، حدیث: 12126)

"میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلے شفاعت قبول ہونے والا ہوں۔”

(مسلم، کتاب الإيمان)

یہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو دنیا و آخرت میں خصوصی تصرفات عطا کیے گئے۔

ائمہ و محدثین کے اقوال

امام قسطلانی فرماتے ہیں:

> "اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو کائنات میں تصرفات کی وہ قوت دی ہے جو کسی اور کو نہیں دی۔”

(المواهب اللدنیہ، ج 1، ص 45)

عالم جمادات بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہے۔ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب پر قدرت و بلندی، تصرف و اختیار عطا فرمایا۔ اس تناظر میں ہمیں اپنے عقائد بھی درست رکھنے چاہئیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ چونکہ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم بشریت میں مبعوث کیا، لہذا وہ عام انسانوں کی طرح انسان تھے۔ نہیں، بلکہ کل کائناتِ جن وانس اور کائنات بشریت و نورانیت میں ہر شے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع بھی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصرف و اختیار میں بھی تھی۔ یہ وہ مقام ہے کہ ساری کائنات پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل تصرف کی مثال نہ کبھی پہلے تھی اور نہ کبھی ہوگی۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرا پہاڑ پر تشریف فرما تھے۔ آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اتنے میں پہاڑ نے حرکت کی اور ایک روایت میں ہے کہ پہاڑ کو وجد آیا اور ایک روایت میں ہے کہ وہ ہلنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے پاؤں سے ٹھوکر ماری اور فرمایا اے حراء ٹھہر جا اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حرا ساکن ہوجا‘‘۔

 

ایک روایت میں احد پہاڑ کا ذکر بھی آیا ہے۔ اس پہاڑ کا حرکت کرنا دراصل اس شرف پر فخر و انبساط کی وجہ سے تھا جو دنیا کی معزز ترین ہستیوں کے اس پر تشریف فرما ہونے کی وجہ سے اسے نصیب ہوا تھا۔ وہ پہاڑ وجد میں آگیا کہ آج آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین میرے اوپر ہیں اور ان کے اصحاب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پس ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ بھی جوش مسرت سے وجد آگیا۔

 

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پہاڑ کے حرکت کرنے پر آقا علیہ السلام نے دعا نہیں کی کہ باری تعالیٰ یہ پہاڑ زلزلہ کی وجہ سے حرکت کررہا ہے، اس کی اس حرکت کو روک دے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پہاڑ پر قدم مارا اور اُسے حکم دیا کہ ٹھہر جا۔ پہاڑ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل تصرف و اختیار کی بدولت فوری رک گیا۔

 

جس وقت یہ واقعہ پیش آیا، اس وقت وہاں کفار موجود نہیں تھے کہ ان کو نبوت کی صداقت دکھانے کی دلیل کے طور پر یا ان کے مطالبے پر پہاڑ کی حرکت کو روکا گیا کہ انہوں نے کہا ہو کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو یہ کرکے دکھادیں۔ خلاف عادت کام کا کفار مطالبہ کرتے ہیں اور نبی اپنی نبوت کی صداقت کی دلیل کے طور پر انہیں دکھاتا ہے۔ اب یہاں نہ ابوجہل ہے نہ ابولہب یہاں کوئی کافر و مشرک بھی نہیں۔ کسی نے مطالبہ بھی نہیں کیا صرف مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ساتھ کھڑے ہیں۔ اب یہاں نبوت کی صداقت کی دلیل دکھانا مقصود نہیں بلکہ پہاڑوں پر بھی موجود تصرف کا اپنے غلاموں کے سامنے ایک اظہار ہے۔ ایک پہاڑ تو درکنار کائنات کے تمام پہاڑ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہیں۔

 

اسی حدیث مبارکہ سے نبی کے دوسرا معنی ’’غیب کی خبریں بتانے والا‘‘ کی ایک دلیل بھی میسر آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے آپ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق بھی خبر دی جنہیں مستقبل میں شہادت کا مرتبہ حاصل ہونا تھا۔ ابھی اُن کی شہادت نہیں ہوئی مگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے علم غیب کے ذریعے ان کی شہادت کی خبر بھی دی جن کی شہادت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے 23 سال بعد ہوئی اور ان کی شہادت کی خبر بھی دی جن کی شہادت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے تقریباً 50 سال بعد ہوئی۔

 

 

کائنات ارض و سماوی کی ہر شے پر حضور بلند ہیں اور ہر شے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصرف و اختیار میں ہے چاہے وہ ارضی ہو یا سماوی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس شانِ تخلیق و تکوین کے سبب سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ

 

مدینہ میں ایک دفعہ طویل قحط ہوگیا، جانور مرنے لگے، کھیتیاں تباہ ہوگئیں۔ جمعہ کا دن آیا، میرے آقا خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ ایک اعرابی کھڑا ہوا اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم مرگئے، ہماری کھیتیاں اجڑ گئیں، جانور مرگئے، کچھ نہیں بچا۔ آپ نے بارش کے لئے دعا فرمائی۔ ابھی منبر سے نیچے بھی تشریف نہیں لائے تھے کہ اسی وقت بادل آگئے اور بارش شروع ہوگئی۔ صحابہ کہتے ہیں کہ بارش اس قدر جلد اور تیز ہوئی کہ ہم نے دوران خطبہ ہی بارش کے قطرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک سے ٹپکتے ہوئے دیکھے۔ پورا ہفتہ بارش ہوتی رہی۔ اگلا جمعہ آگیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ پھر وہ اعرابی یا کوئی اور کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہمارے گھر گر گئے، رستے بند ہوگئے، بارش تھمنے کو نہیں آرہی۔ آقا علیہ السلام نے اس کی بات سنی اور مسکرادیئے۔ پھر (اپنے سراقدس کے اوپر بادل کی طرف انگلی مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے اسے حکم) فرمایا:

 

 

’’ اے بادلو ہمارے اردگرد برسو، ہمارے اوپر نہ برسو‘‘۔

 

صحابی کہتے ہیں کہ چنانچہ میں نے بادلوں کی طرف دیکھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹتے چلے گئے اور مدینہ شہر سے ہٹ گئے اور اردگرد برستے رہے۔

 

 

 

’’اسی وقت بادل مدینہ کے اوپر سے ہٹ کر چاروں طرف یوں چھٹ گئے گویا وہ تاج ہیں (یعنی تاج کی طرح دائرہ کی شکل میں پھیل گئے)‘‘۔

 

دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:

 

 

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دست مبارک سے آسمان پر جس طرف اشارہ فرماتے، ادھر سے بادل چھٹ جاتے یہاں تک کہ مدینہ منورہ تھالی کی طرح (صاف) ہوگیا‘‘۔

 

حتی کہ اردگرد مہینے تک بارش برستی رہی، جو ملحقہ علاقوں سے آتا وہ اس بات کی گواہی دیتا لیکن مدینے پر بادل لوٹ کر نہ آئے۔

 

٭ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تصرف زمین و آسمان، دنیا و جنت، جمادات و نباتات، بادلوں و بارشوں، کنکریوں اور خشک زمینوں پر بھی ہے۔ آقا علیہ السلام کا یہ تصرف و اختیار اعلان نبوت سے پہلے بھی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت سے ہی ہر شے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست تصرف میں تھی۔ امام سیوطی الخصائص الکبریٰ میں بیان کرتے ہیں کہ

 

جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر تین سال تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تھے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی حضرت شیما آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے کر بکریوں کو چرانے لے گئیں۔ حضرت حلیمہ سعدیہ پریشان ہوئیں اور کہا بیٹی شیما! میرے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دور دھوپ میں کہاں لے گئی تھی، حضرت شیما نے کہا:

 

 

’’امی جان! میرے بھائی کو دھوپ نہیں لگی: بادل ان پر مسلسل سایہ فگن رہا، جب یہ ٹھہرتے تو وہ بھی ٹھہر جاتا اور جب یہ چلتے تو وہ بھی چل پڑتا تھا۔ یہاں تک کہ ہم یہاں پہنچ گئے‘‘۔

 

آقا علیہ السلام کے تصرف میں یہ سب کچھ اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے وقت سے ہی دے دیا تھا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button