اے چاند کو توڑ کر جوڑنے والے، ہم بھی ٹوٹا ہوا مقدر لئے بیٹھے ہیں

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی آئی آئی ایس‘پی ایچ ڈی
ـCell : 9705170786
٭ یانبی سلام علیک۔
٭ آقا کے شایان شان جلوس میں نازیبا نعرے نہ ہوں۔
٭ درود کا ورد کریں جو فرشتے خود حضور ؐ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
٭ جلسہ ٔ میلاد النبی ؐ قطب شاہی دور سے جاری۔
تاریخی حیدرآباد شہر حضرت محمد ؐ کے 1500ویں یوم ولادت کی تیاریوں میں مشغول ہے۔ ویسے آپ کی ولادت با سعادت 12ربیع الاول یعنی 5ستمبر کو ہے لیکن حیدرآباد کی عظیم الشان گنگا جمنی تہذیب کو مد نظر رکھتے ہوئے سینکڑوں سال پرانا میلاد جلوس 14ستمبر بروز اتوار کومقرر کیا گیا ہےتاکہ گنیش جلوس کو پر امن ڈھنگ سے جاری رکھا جاسکے جو جمعہ کو مقرر تھا۔
حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی اور رکن اسمبلی اکبر الدین اویسی کی قیادت میں مرکزی میلاد کمیٹی کے ارکان نے ریاستی چیف منسٹر ریونت ریڈی سے ملاقات کی اور ان سے خواہش کی کہ وہ اس جلوس کو ریاست کی سرپرستی عطا کرے۔چیف منسٹر نے وفد کو یقین دلایا کہ سارے انتظامات کئے جائیں گے تاکہ اس موقع کو ایک تاریخی حیثیت دی جاسکے۔ میلاد جلوس کی ایک بہت بڑی تاریخ ہے جو قلی قطب شاہی دور سے جاری ہے۔ جشن میلاد النبی ؐ ایک زبردست تہوار کے طور پر منایا جاتا رہا ، اس جشن کی خاص بات یہ ہوتی تھی کہ حیدرآباد شہر کے بانی قلی قطب شاہ خود ان تقاریب میں حصہ لیتے اور اپنی شاعری کے ذریعہ اس موقع کو ایک یاد گار میں تبدیل کردیتے۔ قلی قطب شاہ کی کلیات محمد قلی قطب شاہ میں نہ صرف میلاد کے بارے میں نظمیں موجود ہیں بلکہ بسنت، نوروز، دیوالی اور مرگ سال کے بارے میں بھی بہت ساری تحریریں ملتی ہیں۔
دیوالی کے موقع پر ہر گھر چراغ جلائے جاتے اور پیلے پھولوں سے گھروں کو بچایا جاتا ، پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون ہندو ہیں اور کون مسلمان۔ان کے زمانے میں جو جشن ہوتے تھے بڑے ہی شایان شان ہوا کرتے تھےجس کے دورا ن تمام بازاروں کو روشنی سے منور کیا جاتا تھا اور عقیدت مندوں کا اژدھام خوشی اور مسرت کے ساتھ اُمڈ پڑتا تھا۔ قلی قطب شاہ کے جانشین عبداللہ قطب شاہ نے محرم اور میلاد النبی ؐ کو بڑے ہی خوبصورت ڈھنگ سے منایا ۔ ہند اور ایران سے صوفی موسیقی کو پیش کیا گیا۔ خیراتی کاموں کو زبردست اہمیت دی گئی اور لوگوں میں سونے کے سکے تقسیم کئے گئے۔ مؤرخ ہارون خان شیروانی کا کہنا ہے کہ آصف جاہی دور میں بھی اس عظیم الشان سلسلہ کو برقرار رکھا گیا ۔ 1872میں مولانا انواراللہ فاروقی فضیلت جنگ نے جامعہ نظامیہ کی بنیاد ڈالی اور حضور نظام نے انہیں عبور مذہبی کا وزیر بھی مقرر کیا ۔ حضور نظام کی سرکار نے مکہ مسجد میں میلاد النبی ؐ خطبہ کا اہتمام کیا جومولانا اکبر نظام الدین حسینی صابری کے مطابق آج بھی جاری ہے۔ حضور میر عثمان علی خان اس خطبہ کے سننے کے بعد اٰثار مبارک کی زیارت بھی کروائی جاتی تھی
اورمکہ مسجد کے احاطہ میں موجود خانقاہِ صابریہ میں داخل ہوتے اور حضور اکرم ؐ کی ستائش میں اپنی تازہ نعت پیش کرتے ۔ اس نعت کو بڑے ہی اہتمام کے ساتھ قوال محفل میں سناتے۔ حضور نظام میلاد ڈنر کا بھی اہتمام فرماتے جو صرف دعوت نامہ کی بنیاد پر مذہبی علما مشائخین اور دانشوران کو بلایا جاتا۔ جہاں تک دعوت کا تعلق ہے یہ کنگ کوٹھی میں مقرر کی جاتی۔ آقائے دوجہاں کی ولادت کے موقع پر مختلف تنظیموں اور اولیااللہ کی درگاہوں کی طرف سے عام طعام کا اہتمام ہوتا ۔ نظام سرکار فرمان جاری کرتے اور اس میں مخصوص رقومات بھی جاری کرنے کا حکم دیا جاتا تاکہ جلسہ میلاد کو کامیاب بنایا جاسکے۔ حیدر آباد میں سینکڑوں جلسے حضور اکرم ؐ کے عشق میں منعقد ہوتے ہیں لیکن دو جلسوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ایک جلسہ کل ہند تعمیر ملت کی طرف سے اور دوسرا جلسہ مجلس اتحادالمسلمین کے زیر اہتما م منعقد ہوتا ہے۔ مجلس کا جلسہ دراصل عبدالواحد اویسی صاحب نے شروع کیا تھا جو بادشاہی عاشور خانہ میں منعقد ہوتاتھا جو بعد میں دارالسلام منتقل ہوا۔ حضرت سید خلیل اللہ حسینی کی جانب سے قائم کی گئی تعمیر ملت کے زیر اہتمام بہت بڑے جلسے نمائش میدان میں تو کبھی نظام کالج گراؤنڈمیں منعقد ہونے لگے۔
بہر حال 2025سال کے دوران ایک سالہ تقاریبات پورے ملک میں منعقد ہونے جارہے ہیں۔ اس موقع پر ہم جلسوں اور جلوسوں کے آرگنائزرس سے بڑے ہی ادب کے ساتھ یہ اپیل کرنا چاہیں گے کہ ہر پروگرام محسن انسانیت کی عظمت کو ذہن میں رکھ کر کئے جائیں۔ نازیبا نعروں سے پرہیز کیا جائے اور درود شریف کے ورد کو عام کیا جائے تاکہ ہمارا ملک محبت ، خلوص اور بھائی چارے کے دھاگے میں پرولیا جائے۔ آقائے دو جہان فرماتے ہیں کہ درود شریف کو میں خود سنتا ہوںاور ہر جمعرات کو درود شریف حضور اکرم ؐ کی خدمت میں فرشتوں کے ذریعہ بہ نفس نفیس پیش کئے جاتے ہیں۔ اس عظیم الشان موقع پر ہم آقائے برتر حضور اکرم ؐ سے التماس کریں گے کہ
اے چاند کو توڑ کر جوڑنے والے
ہم بھی ٹوٹا ہوا مقدر لئے بیٹھے ہیں