قصیدۂ بردہ شریف: عشقِ نبی ﷺ کی جاوداں یادگار ،مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

قصیدۂ بردہ شریف: عشقِ نبی ﷺ کی جاوداں یادگار ،مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد 10ستمبر(پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ قصیدۂ بردہ شریف چھٹی صدی ہجری کے مشہور و ممتاز عالم حضرت امام محمد بن سعید شرف الدین البوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے تصنیف فرمایا۔
یہ مبارک قصیدہ مجموعی طور پر 162 اشعار پر مشتمل ہے، اور اس کا اصل نام ہے:
"الكواكبُ الدُرِّيَّةُ فِي مَدْحِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ”
لیکن یہ قصیدہ عام طور پر دو ناموں سے مشہور ہوا:
1. قصیدۃ البُردۃ
2. القصیدۃ المیمیة
خاص طور پر "قصیدۃ البُردۃ” نے امتِ مسلمہ میں بے حد شہرت پائی، کیونکہ اس کے ذریعے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو ایک عظیم معجزہ حاصل ہوا تھا۔ روایت ہے کہ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ پر فالج کا حملہ ہوا اور آپ مفلوج ہو گئے۔ حضور ﷺ کی مدح میں ایک مرتبہ جب آپ نے یہ قصیدہ پڑھا، تو خواب میں حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا مبارک ہاتھ آپ کے جسم پر رکھا اور مبارک چادر آپ پر اوڑھا دی۔ نتیجتاً آپ کی شفا ہوئی، اور یہ قصیدہ ایک معجزہ کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس لیے اسے ایک اور نام بھی ملا:”قصیدۃ البُرءۃ” (یعنی شفا دینے والی قصیدہ)۔ آج بھی یہ قصیدہ علمی، عقیدتی، اور روحانی محافل میں پڑھا جاتا ہے، جہاں اس کی مدحِ نبی ﷺ کی کلمات ہر عاشقِ رسول ﷺ کے دل کو منور کرتی ہیں۔ یہ قصیدہ ایک لازوال اثر کی مانند امت مسلمہ کی عشقِ مصطفی ﷺ کی روشن میراث بن چکا ہے۔ محبتِ نبی ﷺ میں یہ قصیدہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے، جو ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی تحریک دیتا ہے، اور حضور ﷺ کی سیرت و اخلاق کو جاننے اور اپنانے کی دعوت دیتا ہے۔”بیان کیا جاتا ہے کہ امام بوصیری رحمہ اللہ پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا آدھا جسم بیکار ہو گیا،اس مصیبت و پریشانی کے عالم میں امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خیال گزرا کہ کیوں نہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر اس نیک عمل کے واسطے سے اللہ کے حضور اپنے اس مرض کے لئے شفاء طلب کروں؟ چنانچہ اس بیماری کی حالت میں یہ مشہور قصیدہ لکھا اور خوب رو رو کر اللہ تعالیٰ سےبیماری سے شفاء کی دعا کی، رات کو سوئے تو خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی، عالم خواب میں پورا قصیدہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سنایا،جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے اس کلام سے اتنے خوش ہوئے کہ اپنی چادر مبارک ان کے کندھوں پر ڈالدی اور پورے بدن پر اپنا دستِ شفاء پھیرا، جس سے بیماری کے اثرات جاتے رہے اور آپ فوراً شفایاب ہوگئے،صبح بیدار ہوۓ تو حضور علیہ السلام کی جانب سے عطا کی جانے والی چادر آپ کے کندھوں پر موجود تھی،جس سے خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ جب صبح آپ اپنے گھر سے نکلے اور سب سے پہلے جس سے آپ کی ملاقات ہوئی وہ اس زمانے کے مشہور بزرگ حضرت شیخ ابوالرجاء تھے۔ انہوں نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو روکا اور درخواست کی کہ وہ قصیدہ جو آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں لکھا ہے مجھے بھی سنا دیں۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کونسا قصیدہ؟ انہوں نے کہا : وہی قصیدہ جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:أمن تذکر جيران إلخ ،یہ سن کر بوصیری رحمہ اللہ نے اپنا وہ قصیدہ انہیں عطا کردیا، اس کے بعد لوگوں میں اس قصیدے کو بڑی شہرت حاصل ہوئی،جب الملک الظاہر کے وزیر بہاء الدین تک اس قصیدے کی اطلاع پہنچی تواس کی ایک نقل تیار کرکے اپنے پاس محفوظ کرلی اور نذر مانی کہ اس قصیدے کو ہمیشہ کھڑے ہوکر،برہنہ پا اور برہنہ سر سُنے گا، اس کے بعد وہ قصیدہ بہاء الدین کے پاس محفوظ رہا جس کے ثمرات و برکات کا اس نے بخوبی مشاہدہ کیا۔ "(1)اس قصیدے کو "قصیدہ بردہ "کہنے کی وجہ یہ ہے کہ علامہ سعد الدین فارقی رحمہ اللہ کو آشوبِ چشم کی بیماری لاحق ہوئی اور بینائی ختم ہونے کے قریب پہنچ گئے، ایک دن خواب میں کسی کو کہتے ہوۓسُنا کہ بہاء الدین کے پاس جا کر اس سے "بردہ” لے کر اپنی آنکھوں پر رکھو،ان شاء اللہ شفا نصیب ہو گی،چناں چہ خواب سے بیدار ہوکر بہاء الدین کے پاس پہنچے اور بہاء الدین سے”بردہ” طلب کیا،جس پر بہاء الدین نے کہا کہ ہمارے پاس "بردہ”نامی کوئی چیز نہیں ،بس علامہ بوصیری رحمہ اللہ کا آپ ﷺ کی شان میں لکھا گیا مدحیہ قصیدہ ہے،جس کے واسطے سے سے ہم اللہ سے شفاء طلب کرتے ہیں،چناں چہ بہاء الدین سےوہ قصیدہ لے کر سعد الدین فارقی رحمہ اللہ نے اپنی آنکھوں پر رکھا تو اسی وقت آنکھیں ٹھیک ہوگئیں۔چوں کہ خواب میں اس قصیدے کو "بردہ”کہا گیا تھا اس لیے اس قصیدے کا نام "قصیدہ بُردہ” رکھ دیا گیا۔
(2) دوسری وجہ تسمیہ جو زبان زد خاص و عام ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سے خوش ہو کر حالتِ منامی میں اپنی چادر مبارک ان کے فالج زدہ جسم پر ڈالدی تھی، اور پھر اپنا دست شفاء بھی پھیرا تھا جس کی برکت سے وہ فوراًشفاء یاب ہوگئے تھے، چوں کہ چادر کو عربی زبان میں بردہ کیا جاتا ہے اور اس قصیدے کی وجہ سے خوش ہوکر امام بوصیری رحمہ اللہ کو آپ ﷺ نے چادر مرحمت فرمائی تھئ اس لیے اس چادرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے اس قصیدےکا نام "قصیدہ بردہ” مشہور ہوا۔
اکثر حضرات نے دوسری وجہ تسمیہ ذکر کی ہے اور یہی زیادہ معروف بھی ہے ،جب کہ صاحبِ کشف الظنون نےدونوں وجوہ ذکر فرما کر پہلی وجہ تسمیہ کو راجح قرار دیا ہے،لیکن درحقیقت دونوں کے درمیان کچھ تعارض نہیں ،کیوں کہ جس طرح آخر الذکر صورت میں آپ ﷺ کی چادر مبارک کی نسبت سے اس قصیدے کو” بردہ” کہا گیا ہے ،اسی طرح پہلی صورت میں بھی خواب میں اس قصیدے کو "بردہ "اسی نسبت سے کہا گیا ہے۔